پاکستان سے طالبان کا خاتمہ چاہتے ہیں،پہلے انہیں شکست پھرمذاکرات کیے جائیں، بلاول بھٹوزرداری،میری جان کو شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ میں اس وقت واحد سیاستدان ہوں جو علی الاعلان طالبان پر نام لے کر تنقید کر رہا ہے، ملک کے کچھ سیاستدان خوفزدہ اور بزدل ہیں جو دہشت گردوں اور شدت پسندوں کیخلاف کارروائی کے معاملے پر جان بوجھ کر قوم کو مغالطے میں ڈال رہے ہیں، غیرمشروط مذاکرات کی با ت کمزور حکو مت کی نشانی ہے ،سربراہ پیپلز پارٹی کا انٹر ویو

بدھ 29 جنوری 2014 08:08

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔29جنوری۔2014ء)پاکستان پیپلز پارٹی کے سر پرست اعلی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ہم پاکستان سے طالبان کا خاتمہ چاہتے ہیں پہلے انہیں شکست پھر ان سے مذاکرات کئے جائیں۔ ملک کے کچھ سیاستدان خوفزدہ اور بزدل ہیں اور وہ دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے معاملے پر جان بوجھ کر قوم کو مغالطے میں ڈال رہے ہیں، ملک میں طالبان کے خلاف کارروائی کیلئے اسوقت اتفاق رائے موجود نہیں، اسے دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

بی بی سی کو دیئے گئے انٹر ویو میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ، ہمارے کچھ سیاستدان’سٹاک ہوم سنڈروم‘ کا شکار ہیں اور وہ طالبان کے معاملے پر واضح موقف اختیار کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں کر سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ناکام ہو رہے ہیں، سوات کی ملالہ یوسف زئی ہو یا ہو یا ہنگو کا اعتزازحسن، وفاقی وزیر شہباز بھٹی یا گورنر سلمان تاثیر یا میری والدہ بے نظیر بھٹو ہماری بہادر آوازیں ایک ایک کر کے خاموش کی جا رہی ہیں، اگر ہم یک زبان ہو کر بولیں گے تو وہ ہم سب کو تو نہیں مار سکتے۔

(جاری ہے)

‘پاکستان پیپلز پارٹی کے سر پرست اعلی کا کہنا تھا کہ مجھے آج کی وفاقی حکومت سے مسئلہ یہ ہے کہ انھوں نے مذاکرات کی نہیں بلکہ غیرمشروط مذاکرات کی بات کی جو کہ کمزوری کی نشانی ہے، ہم نے تحفظات کے باوجود طالبان سے بات چیت کے معاملے پر ان کی حمایت کا فیصلہ کیا، 6ماہ بعد مذاکرات کی باتیں تو بہت ہوئی ہیں لیکن کوئی عملی اقدام نہیں اٹھائے گئے، ہم نے حکومت پر واضح کردیا ہے کہ اگر وہ اب مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو وہ غیرمشروط نہیں ہو سکتے۔

طالبان سے مذاکرات کے لیے شرائط کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ صرف ان کے ہتھیار ڈالنے کی شرائط طے کرنے کے لیے مذاکرات پر تیار ہیں، ہم نے بہت مذاکرات کی بات کر کے دیکھ لی ہے، مذاکرات ہمیشہ ہماری پالیسی کا حصہ رہے ہیں لیکن ہمیں ایک طاقتور کی حیثیت سے بات کرنی ہوگی اور یہ حیثیت ہیں صرف دہشت گردوں کو شکست دے کر حاصل کی جاسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ شرائط یہ ہوں کہ جنگ بندی کی جائے اور طالبان ہتھیار پھینک دیں، وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کریں اور اسلامی قوانین کی پابندی کریں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہ بات چیت کامیاب نہیں ہوتی، ہم ماضی میں بھی یہ تجربہ کر چکے ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کا وزیرستان میں فوجی کارروائی کے امکان پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے چیر پرسن کا کہنا تھا کہ طالبان ہم سے لڑائی کر رہے ہیں، ہم پاکستان سے طالبان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

بلاول کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے خلاف کارروائی کے لیے اس وقت ملک میں اتفاقِ رائے موجود نہیں اور اسے دوبارہ قائم کرنے کی ضرورت ہے، ہم نے جو قومی اتفاقِ رائے قائم کیا تھا وہ ایسے سیاستدانوں نے جو کہتے ہیں کہ یہ امریکہ کی جنگ ہے نے حماقتوں سے ضائع کر دیا گیا، یہ سیاستدان جان بوجھ کر قوم کو مغالطے میں ڈال رہے ہیں کیونکہ وہ ڈرے ہوئے ہیں اور بزدل ہیں۔

پاکستان کا وزیراعظم بننے کے سوال پر بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ان کا مشن پاکستان کا وزیراعظم بننا نہیں بلکہ اس نظریے کو کامیاب بنانا ہے کہ تمام امن اور ترقی پسند قوتیں متحد ہو کر کام کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی توجہ 2018 کے انتخابات پر ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ انہیں اونچے درجے کی سیاست میں انھیں ضمنی انتخابات میں پیراشوٹ کیا جائے۔

بلاول کا کہنا تھا کہ یہ بات اب غیر متعلقہ ہے کہ پاکستان ان کے سیاست کرنے کے لیے محفوظ ہے یا نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے اور کم از کم ان کے خلاف آواز تو اٹھانی ہے، میری جان کو اس وقت شدید خطرات لاحق ہیں کیونکہ میں اس وقت واحد سیاستدان ہوں جو علی الاعلان تحریکِ طالبان پر نام لے کر تنقید کر رہا ہے اور باقی سیاستدانوں کے پاس وہ کچھ نہ کہنے کے لیے کوئی بہانہ باقی نہیں رہا جو میں کہہ رہا ہوں۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمارے سیاستدانوں میں سے کچھ ’سٹاک ہوم سنڈروم‘ کا شکار ہیں اور وہ طالبان کے معاملے پر واضح موقف اختیار کرنے کے لیے خود کو تیار نہیں کر سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ناکام ہو رہے ہیں۔ سوات کی ملالہ ہو یا ہنگو کا اعتزاز یا شہباز بھٹی یا گورنر سلمان تاثیر یا میری والدہ ہماری بہادر آوازیں ایک ایک کر کے خاموش کی جا رہی ہیں۔

اگر ہم یک زبان ہو کر بولیں گے تو وہ ہم سب کو تو نہیں مار سکتے۔‘انھوں نے کہا کہ لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ پاکستان کو لاحق سب سے بڑا خطرہ کیا ہے، میرے خیال میں پاکستان کو سب سے بڑا خطرہ ناخواندہ، بھوک کا شکار افراد سے ہے کیونکہ مضطرب افراد کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں چنانچہ وہ دہشت گردوں کے لیے نرسری ثابت ہوتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کا طویل المدتی حل ضروری ہے لیکن اس وقت پاکستان کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ داخلی دہشت گردی سے ہے۔

۔‘سندھ فیسٹیول کے بارے میں سوال پر پی پی پی کے شریک چیئرمین نے کہا کہ اس کا ایک مقصد تو موئنجو ڈرو کو خستہ حالی سے بچانا اور دوسرا مقصد اس ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنا، اس کی حفاظت کرنا اور اس کی تشہیر کرنا ہے جو میرے خیال میں اس وقت خطرے میں ہے۔انھوں نے کہا کہ ’پاکستانیوں کے سامنے سوال رکھا گیا ہے کہ کیا ہمیں ایک قوم کے طور پر باندھے ہوئے ہے؟ اور ان سوالوں کے کئی جوابات ہو سکتے ہیں۔

سابق فوجی آمر جنرل ضیا الحق کا جواب ہو گا مذہب اسلام۔ لیکن تاریخ نے یہ بات غلط ثابت کی ہے۔ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش ہے اس کا بھی مذہب اسلام تھا لیکن مذہب مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک نہ رکھ سکا۔ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف اس کا جواب دیں گے کہ فوج لیکن تاریخ دیکھیں تو یہ بھی غلط ثابت ہوا کیونکہ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں ہی میں فوج تھی لیکن وہ ان دو حصوں کو متحد نہ رکھ سکی۔

‘بلاول زرداری بھٹو نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں قوم کو معاشرے اور ثقافت کی جنگ کا سامنا ہے جو وہ دائیں اور بائیں بازووٴں کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہار رہی ہے۔’میرے خیال میں معاشرے اور ثقافتی جگہ کی جنگ ہم زیادہ دائیں بازو کے سامنے ہار رہے ہیں بہ نسبت بائیں کے اور ایسا عربنائزیشن اور طالبانائزیشن کے ذریعے ہو رہا ہے۔ دائیں بازو والے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کو غیر اسلامی کہتے ہیں اور ہمیں اس پر تہذیب پر فخر نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیں طالبانائزیشن اور عربنائزیشن پر فخر کرنا چاہیے۔

اور دوسری جانب بائیں بازو پر لوگ اس پاکستان اور جو پاکستان بننے جا رہا ہے اس سے اتنا مایوس ہوئے کہ انہوں نے پاکستان ہی کو مسترد کر دیا۔‘اس سوال پر کہ کیا کوئی ایسا لمحہ ہوتا ہے جس میں وہ اپنے آپ سے سوال کرتے ہوں کہ اس وقت ان کی والدہ ہوتیں تو کیا کرتیں، بلاول نے کہا کہ ’ہاں میں اسی کے سہارے جیتا ہوں۔ میں اپنے آپ سے پوچھتا ہوں کہ اس وقت میری ماں کیا کرتی۔

مثال کے طور پر میری ماں کی ہلاکت پر غم و غصہ تھا لیکن خوف نہیں تھا جبکہ سلمان تاثیر کی موت کے بعد سب سے حاوی جذبات خوف کے تھے۔ پورا ملک خوف کی وجہ سے خاموش تھا۔ اور یہ ایسا وقت تھا کہ میں نے سوچا کہ اگر میری ماں ہوتی تو وہ کیا کرتی۔ اس لیے میں اس وقت جاری پروپیگنڈے، توہینِ مذہب کے الزامات لگنے کے خطرے کی پروا کیے بغیر اس کے خلاف واضح طور پر کھل کر بولا۔‘