تین سال بعد پاک امریکا اسٹریٹیجک مذاکرات (آ ج) واشنگٹن میں ہوں گے ، سرتاج عزیز اورجان کیری ملاقات میں سٹریٹجک مذاکرات کا روڈ میپ تیار کریں گے،پاکستان امریکی مارکیٹوں تک بہتر رسائی اور براہِ راست امریکی سرمایہ کاری چاہتا ہے، سرتاج عزیز،مذاکرات میں سلامتی اور اقتصادیات پر بات اور مستقبل کے تعلقات کی منصوبہ بندی کی جائیگی،امریکی اہلکار

پیر 27 جنوری 2014 08:29

واشنگٹن( اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27جنوری۔2014ء)قومی سلامتی وخارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز اور امریکی وزیر خارجہ کے درمیان ایک اہم ملاقات (آج)پیر کو واشنگٹن میں ہوگی جس میں دونوں ملکوں کے درمیان سٹریٹجک ڈائیلاگ کیلئے روڈ میپ کو حتمی شکل دی جائے گی۔سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات کا خواہاں ہے اور پاکستان امریکی مارکیٹوں تک بہتر رسائی اور پاکستان میں براہِ راست امریکی سرمایہ کاری بھی چاہتا ہے جبکہ امریکی اہلکار کے مطابق امریکہ کی کوشش ہوگی کہ مذاکرات میں سلامتی اور اقتصادیات پر بات کی جائے اور مستقبل کے تعلقات کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔

اس ملاقات اور سٹریٹجک ڈائیلاگ میں شرکت کیلئے مشیر خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز اور پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف امریکہ پہنچ چکے ہیں جہاں اعلیٰ حکام اور سفارتخانہ کے اہلکاروں نے ان کا خیرمقدم کیا۔

(جاری ہے)

امریکی محکمہ خارجہ کے ایک بیان کے مطابق سرتاج عزیز اور جان کیری کی ملاقات امریکی محکمہ خارجہ میں ہوگی جس میں دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک مذاکرات کو وسعت دینے سے متعلق معاملات پر غور کیا جائے گا۔

جان کیری نے اس ملاقات کا اعلان گزشتہ سال اگست میں دورہ پاکستان کے دوران کیا تھا۔اسٹریٹیجک مذاکرات میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران ہونی والی پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا اور دو طرفہ تعاون کے معاملات میں شراکت داری بڑھانے کے مواقعوں کی نشاندہی کی جائے گی۔بیان کے مطابق سرتاج عزیز اور جان کیری کی ملاقات کے دوران میڈیا کو ابتدائی بات چیت تک رسائی دی جائے گی جبکہ یہ ملاقات اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر براہ راست بھی دکھائی جائے گی ۔

تین سال بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان سٹریٹیجک مذاکرات کا دوبارہ آغازہورہا ہے ۔ دونوں ملکوں نے معیشت و تجارت، انسداد دہشت گردی ،قومی سلامتی، سائنس و ٹیکنالوجی، ثقافت او ردیگر شعبوں میں تعلقات کے فروغ کیلئے کئی ورکنگ گروپ بنا رکھے ہیں اور ان ورکنگ گروپوں کے اجلاسوں کے بعد وزراء خارجہ کی سطح پر ان سٹریٹجک مذاکرات میں پیشرفت کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

مذاکرات کے اس مرحلہ میں بھی دونوں ملکوں کے درمیان وزارتی سطح کے مذاکرات میں ورکنگ گروپس کی پیش رفت کاجائزہ لیاجائے گا۔دفاع، توانائی ، معیشت ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انسداد دہشت گردی سمیت دوطرفہ تعاون کے مختلف شعبوں میں شرکت داری کیلئے تجاویز اور مواقع پربھی تبادلہ خیال کیاجائے گا۔ دفترخارجہ نے بتایا ہے کہ پاکستان اس موقع کو تجارت اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے سمیت اقتصادی ترقی کیلئے ترجیحات کو اجاگر کرنے کیلئے بروئے کار لائے گا۔

گذشتہ برس اگست میں امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری کے ہمراہ مذاکرات کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات کا خواہاں ہے اور پاکستان امریکی مارکیٹوں تک بہتر رسائی اور پاکستان میں براہِ راست امریکی سرمایہ کاری بھی چاہتا ہے۔پاکستان اور امریکہ کہ درمیان 2010 میں سٹریٹیجک مذاکرات کا آغاز ہوا تھا تاہم 2011 ء میں اسامہ بن لادن کی خفیہ کارروائی میں ہلاکت سمیت کئی واقعات دونوں ممالک میں تلخی کا سبب بنے اور یہ مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہوئے۔

پاکستان نے سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی ہیلی کاپٹرز کے حملے میں چوبیس فوجیوں کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کو پاکستان کے راستے تیل اور دوسری رسد کی فراہمی روک دی تھی۔ اس کے علاوہ صوبہ بلوچستان میں امریکہ کے زیر استعمال شمسی ائر بیس کو خالی کرایا گیا تھا۔ امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے گذشتہ برس اگست میں پاکستان کے دورے کے موقع پر مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا تھا۔

ایک امریکی اہلکار کے مطابق امریکہ کی کوشش ہوگی کہ مذاکرات میں سلامتی اور اقتصادیات پر بات کی جائے اور مستقبل کے تعلقات کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ایک روز قبل ہی پاکستان میں تعینات امریکی سفیر رچرڈ اولسن نے اس بات کی تصدیق کی ہے امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاونت کے لیے 35 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کی منظوری دی ہے تاہم اس سے قبل امریکی کانگریس نے نئے مالی سال کے لیے بجٹ کے مسودے میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے لیے دی جانے والی رقم کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کیا تھا۔

امریکی شرائط کے تحت امریکی وزرائے خارجہ و دفاع کو امریکی کانگریس کو یہ بتانا ہوگا کہ پاکستان القاعدہ، تحریکِ طالبان پاکستان، حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوری کے خلاف کارروائی میں کیا مدد کر رہا ہے۔انھیں کانگریس کو یہ یقین بھی دلانا ہوگا کہ پاکستان اپنی سرزمین سے امریکی یا افغان فوج پر ہونے والے حملوں کو روکنے کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہا ہے۔