حکمرانوں نے ٹیلنٹ کو کبھی درست استعمال نہیں کیا، ڈاکٹرقدیر خان ،کراچی میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ یہ بم بھی بناسکتے ہیں، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم سوئی اور پلاسٹک کے کھلونے چائنا سے درآمد کرتے ہیں جو افسوسناک ہے،ملک کا تعلیمی معیار ایسا ہے کہ لوگ جعلی ڈگری حاصل کرکے رکن اسمبلی بن جاتے ہیں،اقراء یونیورسٹی کے بارہویں جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب

پیر 27 جنوری 2014 08:28

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔27جنوری۔2014ء )ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے کہا ہے کہ حکمرانوں نے ٹیلنٹ کو کبھی درست استعمال نہیں کیا، کراچی میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ یہ بم بھی بناسکتے ہیں، ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم سوئی اور پلاسٹک کے کھلونے چائنا سے درآمد کرتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ملک کا تعلیمی معیار ایسا ہے کہ لوگ جعلی ڈگری حاصل کرکے رکن اسمبلی بن جاتے ہیں۔

وہ اتوار کواقراء یونیورسٹی کے بارہویں جلسہ تقسیم اسناد سے خطاب کررہے تھے۔تقریب سے اقراء یونیورسٹی کے چانسلر حنیدلاکھانی ‘ وائس چا نسلر یواے جی عیسانی اور دیگر مقررین نے خطاب کیا ۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا ہے کہ حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے پاکستان کا ٹیلنٹ پاکستان سے باہر جا رہا ہے،گزشتہ 66 سالوں میں ہم نے پاکستان میں صرف ایٹم بم ہی بنایا ہے۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ ہر چیز ہم چین سے امپورٹ کر رہے ہیں، ڈاکٹر قدیر خان نے کہ جنرل ضیاء کے دور میں ہماری امداد اور قرض بند کردیے گئے تھے لیکن ہم خوش تھے۔ انہوں نے کہا کہ1974ء میں بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو ہم نے بھی ایٹم بم بنانے کا سوچا اور سات سال کی محنت کے بعد ہم ایٹمی طاقت بننے کے قابل ہوگئے میں ۔ انہوں نے اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ابتدائی تعلیم کراچی میں ڈی جے کالج سے بی ایس سی کی تعلیم حاصل کی ۔

پھر میں نے برلن سے اور ایم آئی ٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی‘ جس کے بعد بیلجیئم سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی۔ اس طرح ہالینڈ سے 7 سال میں نیوکلیئر کی تعلیم حاصل کی۔پھر میں نے 4 سال میں وہ تمام نالج حاص کرلی جو جرمنی‘ ہالینڈ اور یورپ کی تمام یونیورسٹیوں نیوکلیئر کے حوالے سے موجود تھی اور انہوں نے وہ نالج 20 سال کے عرصہ میں حاصل کی تھی۔

74 میں ہندوستان نے دھماکہ کیا اور میں نے 71 کا حال دیکھا ہوا تھا تو سوچا کہ پاکستان تو مشکل میں جائے گا اور ہندوستان اس پر حاوی ہو جائے گا تو میں نے بھٹو صاحب کو خط لکھا انہوں نے مجھے بلایا ۔میں نے ان کو بتایا کہ میں پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے انہیں اپنی تمام تر تحقیقات سے آگاہ کیا اور ان کو بتایا کہ کہاں سے کیا کیا چیزیں بن سکتی ہیں۔

اس تمام کام کے لئے میری بیگم نے میری بہت ہمت افزائی کی۔اس طرح میں نے ابتدائی چھ ماہ اٹامک انرجی کے ساتھ کام کیا ۔اس دوران چونکہ ہر طرف بیوروکریسی تھی جس کی وجہ سے کام کچھ ہو نہیں رہا تھا ۔ میں نے بتایا کہ میرا تجربہ کیا ہے تو انہوں نے میرا پروجیکٹ علیحدہ کر دیا جو کہ دنیا کی بہترین ٹیکنالوجی تھی۔اس طرح ہم نے چھ سات سال میں پاکستان کو اٹامک پاور بنادیا۔

انہوں نے کہا کہ میرا اصول ہمیشہ یہی رہا ہے کہ جو کام کرو اچھی طرح کرو۔انہوں نے اساتذہ اور والدین کو مبارکباد پیش کی جن کے بچوں نے کامیابی‘ محنت اور لگن سے ایک اعلی ادارے سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ اچھے ادارے کا اچھی تعلیم و تربیت پر بہت اثر پڑتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ خوب سے خوب دل لگا کر پڑھیں اور جس ٹیکنالوجی میں بھی ماسٹرز کرنا ہے اس کی اعلی تعلیم حاصل کریں کیونکہ تعلیم میں ہی عظمت ہے اور میں آج جو بھی کچھ ہوں تعلیم کی بدولت ہوں۔

جلسہ تقسیم اسناد میں نمایاں کار کردگی دکھانے والے 10 طلبہ کو گولڈ میڈل دئیے گئے۔ جن طلبا وطالبات کو گولڈ میڈل دیئے گئے ان کا تعلق بزنس منیجمنٹ (BBA,MBA,MPhil) سے ہے‘ کمپیوٹر سائنس میں (Bs(CS) اور (MS) سے ہے‘ انجینئرنگ (BE ٹیلی کمیونی کیشن اور MS‘ میڈیا سائنس بیچلرآف میڈیا سائنس‘ فلم اینڈ ٹی وی ایند ایڈورٹائزمنٹ‘ ای ایجوکیشن‘ لرننگ سائنس‘ بیچلر ان فیشن ڈیزائننگ۔جب کہ گریجویٹ اور ماسٹرز کرنے والے 300 طلباء میں اسنادتقسیم کی گئیں۔