سپریم کورٹ اوگرا نیب عملدرآمد کیس ،بدعنوانی چھوٹا معاملہ نہیں چھوڑا نہیں جاسکتا ، اپنی حدود جاننے میں بے تاب ہیں ،ادارے سو جائیں تو کیا عدالتیں بھی آنکھیں بند کر لیں ، جسٹس جواد ایس خواجہ ،45دن کا ٹائم تھا ،26مہینے گزر گئے مہربان کہتے ہیں جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرسکتے، آسٹریلیا نے اپنے قانون میں لکھ دیا ہے تحقیقاتی ادارے تساہل سے کام لیں تو عدالت کو نوٹس لینے کا اختیار ہے ، ریمارکس ، قانونی نکات کو ان کے دلائل ہی سمجھا جائے، ا علیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی رو سے عدلیہ کو جوڈیشل رویوں کا مکمل اختیار حاصل ہے، کے کے آغا ، سماعت 28 جنوری تک ملتوی

ہفتہ 25 جنوری 2014 07:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔25جنوری۔2014ء) سپریم کورٹ نے اوگرا نیب عمل درآمد کیس میں تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ بدعنوانی کوئی چھوٹا معاملہ نہیں کہ جس کو چھوڑ دیں ، یہ بہت بڑا ایشو ہے جس کے لیے اپنی حدود جاننے میں بے تاب ہیں ، بتایا جائے کہ اگر بدعنوانی روکنے والے ادارے سو جائیں تو کیا عدالتیں بھی آنکھیں بند کرلے ، آسٹریلیا نے اپنے قانون میں لکھ دیا ہے کہ اگر تحقیقاتی ادارے تحقیقات کی پیش رفت میں تسا ہلسے کام لیں گے اور معلومات میں طوالت ہوگی تو عدالت کونوٹس لینے کا اختیار ہے ،45 دن تفتیش کیلئے دیئے مہربانوں نے 26 ماہ گزرنے کے بعد کہا کہ آپ چیئرمین نیب کو جلد بازی میں فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کرسکتے ، ایک شخص اربوں روپے ڈکار کر نیب کے دفتر سے ہی غائب ہوگیا تو اب ہم پوچھ بھی نہیں سکتے کہ جناب چیئرمین بتائیے تحقیقات میں کیا کیا ہے ، نیب کی نظر ثانی کی درخواست بھی سماعت کے لیے مقرر کردی ہے، انہوں نے یہ ریمارکس جمعہ کے روز دیئے ہیں ۔

(جاری ہے)

پراسکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے عدالت سے کہا کہ قانونی نکات کو ان کے دلائل ہی سمجھا جائے جس پر عدالت نے کہا کہ اگر پھر بھی آپ کچھ مزید کہنا چاہیں گے تو آپ کو اس کی اجازت دیتے ہیں تاہم کے کے آغا نے کہا کہ ان کی درخواست کافی ہے اس دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ا علیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی رو سے عدلیہ کو جوڈیشل رویوں کا مکمل اختیار حاصل ہے اس حوالے سے انہوں نے کئی فیصلوں کے حوالے بھی دیئے اس پر عدالت نے کہا کہ اس معاملے کو 28 جنوری ( منگل ) کے روز تفصیل سے سماعت کرینگے اور سماعت ملتوی کردی ۔