خاور محمود لاپتہ کیس میں حکومت پنجاب کی رپورٹ سختی سے مسترد، وفاقی حکومت سے پوچھ کر بتائیں آخر حکومت لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا چاہتی ہے یا نہیں؟،اٹارنی جنرل سے سپریم کورٹ نے 24گھنٹوں میں جواب طلب کر لیا،تمام ادارے آئینی و قانون کی نیک نیتی سے پاسداری کریں تو دہشت گردی سمیت تمام معاملات حل ہوجائینگے،جسٹس جواد، خالی خولی خطوط کا کوئی فائدہ نہیں ، عملی طور پر کچھ نہیں کرتے تو نمائندے کو بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں،ریمارکس

جمعہ 24 جنوری 2014 07:12

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔24جنوری۔2014ء) سپریم کورٹ نے فورٹ عباس سے خاور محمود لاپتہ کیس میں حکومت پنجاب کی رپورٹ سختی سے مسترد کردی ہے اور اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ کو ہدایت کی ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں وفاقی حکومت سے پوچھ کر بتائیں کہ آخر حکومت لاپتہ افراد کو بازیاب کرانا چاہتی ہے یا نہیں؟ ، عدالت لاپتہ افراد کے لواحقین کو کیا جواب دے ، آئین کے آرٹیکل 37 کے مطابق شہریوں کو کم خرچ میں جلد سے جلد انصاف مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حساس اداروں کے نزدیک آئین کی کوئی وقعت نہیں ۔

اخبارات پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ہر طرف لاقانونیت ہی لاقانونیت ہے ۔ خاور لاپتہ کیس میں وزیراعظم پاکستان اور وزیراعلیٰ بلوچستان میں متعلقہ حلقے ہیں ۔

(جاری ہے)

پولیس فوجداری قانون کے تحت کسی بھی حساس ادارے کے افسر کیخلاف تفتیش میں مدد نہ دینے پر فوجداری کارروائی کا اختیار رکھتی ہے یہ اچھی اسلامی ریاست ہے جس میں قانون کی پاسداری تک نہیں کی جاتی ۔

اگر اس ملک میں تمام ادارے آئینی و قانون کی نیک نیتی سے پاسداری کریں تو ملک میں دہشت گردی سمیت تمام معاملات حل ہوجائینگے ۔ آئی ایس آئی ، ایم آئی کو خالی خولی خطوط لکھنے ، یاددہانیاں کرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا ، آئین و قانون کے مطابق کارروائی کرنا پڑے گی ۔ وزارت دفاع جب عملی طور پر کچھ نہیں کرتی تو اس کے نمائندے کو بھی ضرورت نہیں وہ آئندہ عدالت نہ آئے ہمارے لیے اٹارنی جنرل اور طارق کھوکھر کافی ہیں ۔

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دیئے ہیں جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی ۔ عدالت نے خاور محمود لاپتہ کیس کی سماعت شروع کی تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر اور آمنہ مسعود جنجوعہ پیش ہوئے اس دوران ڈی پی او نے رپورٹ پیش کی ہے کہ حکومت نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم مقرر کردی ہے اس دوران اٹارنی جنرل بھی موجود تھے ۔

طارق کھوکھر نے کہا کہ مجھے ہدایت کی گئی ہے کہ اس کے مطابق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بن چکی ہے اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ جے آئی ٹی کی شاید ضرورت نہ ہو پولیس افسر نے تفتیش کرلی ہے وہ کسی اور کا مرہون منت نہیں ہے ابھی تک حکومت نے ان کو کام سے نہیں روکا ہے پولیس آئی ایس آئی یا ایم آئی کی مرہون منت نہیں کہ ان کو منت ترلے کرتی پھرے اسے اپنا کام کرنا پڑے گا اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا ۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کہاں ہیں ؟ اس معاملے کو عام انداز سے مت لیا جائے اگر کوئی خط کا جواب نہیں دیتا تو تفتیش میں جو شامل نہیں ہوگا اس کیخلاف فوجداری کارروائی ہوگی ۔ باقی کام تفتیشی نے کرنا ہے ۔ خار محمود سعدیہ بی بی کے شوہر ہیں ہم کوئی ایسی چیز کو محسوس نہیں کرتے خاور محمود کے بھائی کی وجہ سے ان کو یرغمال رکھا ہوا ہے مرزا صاحب جواب دیں کہ آپ کیا کررہے ہیں یہ ابھی تک کیوں بازیاب نہیں ہوئے ہیں پولیس نے پکڑنا عامر محمود کو تھا ۔

لاء افسر مرزا نے عدالت کو بتایا کہ پولیس جو کام کرسکتی تھی کررہی ہے تین افراد کے بیانات لئے ہیں ان کے بیانات موجود ہیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اب معاملات دباؤ والے ہورہے ہیں پنجابی صوبہ اور وفاق دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے کھوکھر صاحب کوشش کررہے ہیں اصل معاملہ تو صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان ہیں کنسرن کوارٹر یہ درج بالا ہیں جو کچھ بھی ہورہا ہے سب کے سامنے ہے سمجھا دیں آپ کیا کہتے ہیں ؟ آپ اپنی کوششوں کے حوالے سے بتائیں یہ رپورٹ ہم مسترد کرتے ہیں یہ کوشش نہیں ہے کہ اگر آپ اس کو کوشش کہتے ہیں اس کے اگلے پندرہ سال بھی خاور واپس نہیں آئے گا ۔

کوششیں یہ ہیں کہ ہم نے خط لکھ دیا ہے ٹیلی فون کردیا ہے عدالت نے عرفان بھٹی سے کہا کہ آپ آئندہ نہ آئیں نہ ہمیں آپ کی ضرورت ہے اور نہ آپ کچھ کرسکتے ہیں ہمارے لئے طارق کھوکھر کافی ہیں ۔ عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے کو روسٹرم سے ہٹنے کے لیے کہا، بتائیں یہ خاتون کہاں جائے ؟ کیا یہ مینار پاکستان پر چڑھ کر خود کشی کرلے کیا آپ اس کو ملک کا شہری نہیں سمجھتے؟ ۔

کوئی کوشش نہیں کی جارہی ہے صرف یقین دہانی کرائی جارہی ہے خدارا کسی بندے کو بھیج دیں ہمیں اس معاملے پر اٹارنی جنرل اور طارق کھوکھر کی معاونت چاہیے ۔ روزانہ اخبارات پڑھ کر محسوس ہوتاہے کہ ہر طرف لاقانونیت ہے کوئی تو تفتیش کرے کوئی اس کا جواب دے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو بلائیں پنجاب لاء افسر نے مزید وقت مانگا عدالت نے وقت دینے سے انکار کردیا اور کہا کہ لاپتہ ہے کہ یہ کب سے لاپتہ ہیں؟ جسٹس جواد نے کہا کہ کس کی عزت زبان سے کہنے سے نہیں دل سے کچھ کرنے کو کہتے ہیں ہم نے سٹیٹس آف ویمن کا قانون بنا دیا ہے اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا سیکشن 154 کے تحت تحقیقات کرکے پولیس خاور محمود کو بازیاب کرائے ۔

25ہزار قوانین بنالیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ خاور محمود جیسا ہی لگ رہا ہے ۔ طارق کھوکھر نے بتایا کہ لاہور ، اسلام آباد اور فورٹ عباس کالیں کیں ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ایک شخص ادھر ادھر بھی بھاگتا پھرتا تھا اس سے پوچھا گیا کہ آپ تو بادشاہ ہو کیا کررہے ہو۔ اس نے کہا کہ باقی چھوڑیں میری آنیاں جانیاں دیکھیں ۔

صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت نے صرف آنیاں جانیاں لگا رکھی ہیں اور کچھ نہیں کیا گیا ہے ۔ لگتا ہے کہ آپ کا ریمانڈ ڈاک سے ابھی تک متعلقہ اداروں کو نہیں مل رہا ہے جو حالات ہورہے ہیں اس میں بھی دہشتگردی ہے لوگوں کو اس طرح سے اٹھانا بھی دہشت گردی ہے جب دل و جان سے آئین و قانون کی پاسداری شروع کردینگے یہ مسئلے حل ہوجائینگے آپ کہیں گے کہ میں ولی ہوگیا ہوں اس میں کسی منطق یا فلسفے کی ضرورت نہیں ہے ۔

یہ سیدھی سادی بات ہے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ ہم سعدیہ بی بی کو کیا جواب دیں ۔ کہتے ہیں کہ جج کے سینے میں دل نہ ہو تو وہ ٹھنڈا ہوکر ایک دیوار گیر گھڑی بن جائے ہم کوشش بھی کرتے ہیں مگر کہاں تک اس کا سہارہ لیں آج جمعہ کو جواب دیں ہم نے تجویز دی تھی جہاں حکومت اربوں کھربوں روپے ادھر ادھر کردیتی ہے ایک ارب نہیں ایک کروڑ نہیں ایک لاکھ روپے اٹارنی جنرل آفس کو دے دیں تاکہ جو لاپتہ افراد کے لواحقین آتے ہیں ان کو اخراجات دیئے جاسکیں یہ ہم نے چھ ماہ قبل کہا تھا جو نادار اور مفلس ہیں ان کی مدد کی جائے ایسے لوگ بھی آتے ہیں کہ جن کے پاس کھانے کو پیسے تک نہیں ۔

بے چاری مدثر اقبال کی والدہ بھی آجاتی ہیں شہریوں کے ساتھ احترام کا برتاؤ رکھا جائے فقیر نہ سمجھا جائے آرٹیکل 37 میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی ضروری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو کم خرچ میں جلد سے جلد انصاف مہیا کرے گی ۔ کیا ایسا ہورہا ہے ان اداروں کے سامنے آئین کی کیا وقعت ہے ؟ اتنا قانون تو عام لوگ بھی سمجھتے ہیں آمنہ نے کہا کہ نیا آرڈیننس جاری ہوا ہے اس میں بھی لاپتہ افراد کا معاملہ آتا ہے اس کی کاپی دے دیں اس پر عدالت نے کہا کہ اس کے حوالے سے 27 کو جائزہ لیں گے دیکھیں گے کہ کون چین سے سوتا ہے اور بیٹھتا ہے،کیس پر مزید سماعت آج جمعہ کو ہوگی ۔