مولانا سمیع الحق پر وزیراعظم کا عدم اعتماد یا مولانافضل الرحمن کی ”پھرتیاں“، شمالی وزیرستان میں آپریشن پر احتجاجاً مولانا سمیع الحق کا حکومت طالبان مذاکرات سے علیحدگی کا اعلان،حکومت نے پہلے مذاکرات کا ٹاسک دیا مگر بعد میں مکر گئی،حکومت بالکل سنجیدہ نہیں ، 3ہفتے وزیراعظم کا منتظر رہا مگر افسوس انہوں نے اندرونی و بیرونی دباؤ کے باعث قومی اہمیت کے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، اعتماد میں لئے بغیر فوجی آپریشن اور علاقے پر بمباری شروع کردی گئی ، خونی کھیل کا حصہ نہیں بن سکتا ، وزیراعظم کو احتجاجی خط بھی بھیج دیا

جمعرات 23 جنوری 2014 06:44

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔23جنوری۔2013ء)مولانا سمیع الحق پر وزیراعظم کا عدم اعتماد یا مولانافضل الرحمن کی ”پھرتیاں“کام آگئیں، شمالی وزیرستان میں آپریشن پر احتجاجاً جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے حکومت طالبان مذاکرات سے علیحدگی اختیار کرلی ہے اور کہاہے کہ حکومت نے پہلے مذاکرات کا ٹاسک دیا مگر بعد میں مکر گئی،حکومت طالبان سے مذاکرات میں بالکل سنجیدہ نہیں ، 3ہفتے وزیراعظم کا منتظر رہا مگر افسوس میاں نوازشریف نے اندرونی و بیرونی دباؤ کے باعث قومی اہمیت کے معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، اعتماد میں لئے بغیر فوجی آپریشن اور علاقے پر بمباری شروع کردی گئی ، خونی کھیل کا حصہ نہیں بن سکتا اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ نے وزیراعظم کو احتجاجی خط بھی بھیج دیا۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے شمالی وزیرستان میں دو روز سے جاری فوجی آپریشن پر احتجاجاً حکومت طالبان سے مذاکرات سے علیحدگی اختیار کرلی اور اس کیلئے باقاعدہ وزیراعظم میاں نوازشریف کو خط کے ذریعے آگاہ کردیاگیاہے ۔ خط میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف سے 31دسمبر کو ہونیوالی ملاقات اور تفصیلی مشاورت کے بعد اللہ کی رضا ،ملک کی سلامتی اورانسانی جانوں کے تحفظ کی خاطر اگلے ہی روز اپنے مشن پر کام شروع کردیا اور2 جنوری کو طالبان کی جانب سے حوصلہ افزاء اور مثبت جواب بھی مل گیا کہ ہم مستحکم بامعنی اورپائیدار مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔

مولانا سمیع الحق نے خط میں مزید کہاکہ اسی روز وزیراعظم کو پیغام دیااور تحمل سے انتظار کیا کہ کسی طریق کار یا حکمت عملی سے مجھے آگاہ کردیا جائے گا۔انہوں نے کہاکہ مجھے یقین تھا کہ اس حساس ترین مسئلہ پر وزیراعظم جلد ہمیں اعتماد میں لیں گے مگر افسوس کہ باربار رابطوں کے باوجود مکمل خاموشی طاری رہی 2ہفتے انتظار کرنے بعد بالآخر وزیراعظم میاں نوازشریف کو تفصیلی خط لکھا اور وزیراعظم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی یہ مکتوب بذریعہ ای میل اور ٹی سی ایس ایک ذمہ دار افسر کے ذریعہ پہنچایاگیاجبکہ وزیراعظم کی مصروفیات واندرونی و بیرونی دباؤ کے احساس سے اس مکتوب پریس کو جاری کرنے سے گریز کیا کہ شاید روشنی کی کوئی کرن نظر آجائے‘ اسی اثناء میں تین دن قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس کے شروع ہونے سے قبل مجھے پی ایم ہاؤس سے پیغام ملا کہ دو افراد کوآپ سے رابطہ کے لئے مامور کیا گیا ہے مگر ابھی تک اس پر بھی کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا۔

انہوں نے کہاکہ دو روز قبل بھی میں نے طرفین سے سیز فائر کی اپیل کی اور کہاکہ خدارا فوجی آپریشن سے اور طاقت آزمائی سے گریز کیا جائے۔ مگر اچانک کل شمالی وزیرستان تیراہ‘ اورقبائلی علاقوں پر بمباری شروع کردی گئی ‘ یقینا فوجی جوانوں کا نقصان بھی ایک قومی المیہ ہے مگر دونوں طرف حالت ِجنگ ہے بے گناہ شہری اور فوجی مارے جارہے ہیں‘ اس کا جواب فوجی آپریشن ہرگز نہیں بلکہ مذاکرات کے عمل کو پورے عزم اورولولے سے آگے بڑھاناہے۔

میں ان اندوہناک حالات میں خود اپنے آپ کو اس خونی المیہ سے الگ تھلگ کرنا چاہتاہوں‘ میں نے ملک وملت کے مفاد کی خاطر اخلاص سے خطرات کو مول لیا مگر افسوس کہ مجھے کوئی سنجیدگی اور فکرمندی نظر نہیں آئی۔اس معاملہ میں میڈیا کے بے حد احترام کے باوجود میں بحث و تمحیص اور سوالات وجوابات کے ذریعہ مسئلہ کو مزید الجھانے سے بچنے کے لئے بحث ومباحثہ سے گریز کرنا مناسب سمجھتا ہوں۔

یاد رہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف اور مولانا سمیع الحق کے درمیان وزیراعظم ہاؤس میں 31 دسمبر 2013ء کو ملاقات کی ۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤ ں ملک کی موجودہ ملک کی امن و امان کی صورتحال خصوصاً طالبان سے مذاکرات کا معاملہ زیر غور آیا جس پر جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ کو یقین دلایاگیا کہ طالبان سے رابطے کریں اس سلسلے میں مولانا سمیع الحق کی مکمل تائید بھی کی جائے گی جس پر مولانا سمیع الحق نے فوری طور پر رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا مگر اسی اثناء میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانافضل الرحمن بھی حرکت میں آگئے اور انہوں نے ایک روز کے وقفے کے ساتھ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی۔

ذرائع کے مطابق ملاقات میں وزیراعظم میاں نوازشریف اور مولانا سمیع الحق کے درمیان ہونیوالی ملاقات کا معاملہ بھی زیر غور آیااور چوہدری نثار علی خان نے حکومت کی جانب سے مولانا فضل الرحمن کو یقین دلایا کہ وہ اہم اتحادی ہیں اور طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کی خدمات بھی لی جائیں گی اور کچھ روز بعد حکومت کی جانب سے یہ بیان بھی جاری کردیاگیا کہ مولانا سمیع الحق کو طالبان سے مذاکرات کا کوئی ٹاسک نہیں دیاگیا۔

ادھر دوسری جانب مولانافضل الرحمن جوکہ غیر ملکی دورے پر ہیں ان سے وزیراعظم کا ٹیلیفونک رابطہ ہوا اور چند روز قبل جے یو آئی (ف) کی خدمات کے اعتراف میں اسے وفاقی کابینہ کا باقاعدہ حصہ بنادیاگیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کوکارنر کردیاگیا جس پر احتجاجًا سمیع الحق نے 15جنوری کو میاں نوازشریف کوتفصیلی مکتوب لکھا اور کہاکہ انہیں بتایا جائے کہ مذاکرات کئے جارہے ہیں یا نہیں راولپنڈی میں آر اے بازار کے واقعہ کے فوری بعد حکومت نے شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کردیا جس پر مولانا سمیع الحق نے حکومت کی اس کارروائی کو غیر سنجیدگی قرار دیتے ہوئے مذاکرات سے علیحدگی اختیار کرلی۔