طالبان کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی خوش آئند ہے ،مولانا سمیع الحق،حکومت خاموشی کی بجا ئے طا لبا ن سے مذاکرات کے لئے فی الفور سنجیدہ اقدام اٹھائے، دونوں اطراف سے جانی نقصان ہورہاہے، وزیراعظم، مقتدر حلقوں سے اللہ اور رسول کا واسطہ دیکر اپیل کرتاہوں کہ فوجی آپریشن سے گریز کیا جائے ، طاقت کا استعمال کیاگیا تو ایسی آگ لگے گی جو بجھائے نہ بجھے گی، امن مذاکرات کے ذریعے ہی قائم ہوسکتاہے، مذاکرات کے حوالے سے مایوس نہیں مو جو دہ وقت پوائنٹ سکورننگ کا نہیں انسانیت کو بچانے کا ہے، مولانا سمیع الحق کا وزیراعظم کو خط

منگل 21 جنوری 2014 05:32

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔21جنوری۔2013ء) جمعیت علمائے اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق کا وزیراعظم کو خط، میاں نوازشریف سے ملاقات کے بعد فوری طور پر مذاکرات کیلئے طالبان سے رابطے شروع کردیئے افسوس مثبت جواب کی بجائے خاموشی اختیار کی گئی، مولانا سمیع الحق کا خط مکتوب میں گلہ، جبکہ مولانا سمیع الحق طالبان کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیاہے کہ حکومت فی الفور سنجیدہ اقدام اٹھائے، دونوں اطراف سے جانی نقصان ہورہاہے، وزیراعظم، مقتدر حلقوں سے اللہ اور رسول کا واسط دیکر اپیل کرتاہوں کہ فوجی آپریشن سے گریز کیا جائے ، طاقت کا استعمال کیاگیا تو ایسی آگ لگے گی جو بھجائے نہ بھجے گی، امن مذاکرات کے ذریعے ہی قائم ہوسکتاہے، مذاکرات کے حوالے سے مایوس نہیں ہوں یہ وقت پوائنٹ سکورننگ کا نہیں انسانیت کو بچانے کا ہے۔

(جاری ہے)

باوثوق ذرائع نے ”خبر رساں ادارے“ کو بتایا کہ جمعیت علمائے اسلام (س ) اور دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے وزیراعظم میاں نوازشریف کو مکتوب لکھ دیاہے جس میں کہاگیاہے کہ وزیراعظم میاں نوازشریف سے ہونیوالی ملاقات کے فوری بعد طالبان سے رابطے شروع کردیئے تھے اور ابتدائی رابطوں سے ہمیں مثبت جواب ملا تھا جس کے بعد باقاعدہ وزیراعظم ہاؤس کو آگاہ کیاگیا مگر افسوس وزیراعظم یا ان کے سیکرٹریٹ کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا بلکہ مسلسل خاموشی اختیار کی گئی ۔

ادھر دوسری جانب طالبان کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی کا خیر مقدم کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق نے حکومت سے مطالبہ کیاہے کہ اس سمت میں فوری اقدام اٹھایا جائے کیونکہ دونوں طرف سے ہرروز بے گناہ انسانوں کا جانی ضیاع ہورہا ہے۔ جو افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ اپنے بیان میں مولانا سمیع الحق نے 2جنوری کو وزیراعظم میاں نوازشریف کے ساتھ ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات ومشاورت کے بعد دوسرے ہی دن میں نے اللہ تعالیٰ کی رضا‘ ملک ملت کی بھلائی اور امن وامان کی خاطر رابطے شروع کردیئے اور بحمداللہ اس کے جواب میں طالبان رہنماؤں نے مستحکم پائیدار اور بامعنی مذاکرات سے اتفاق کیا۔

اور اس سلسلے میں انہوں نے باہمی مشاورت بھی شروع کی۔جس کے 3 دن بعد بعدپانچ جنوری کو وزیراعظم کے سٹاف کے ایک اہم ذمہ دار افسر کے ذریعہ اس مثبت ردعمل سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ اس کیساتھ ہی مذاکرات کے آغاز پر ہی بعض حلقوں کی طرف سے لاحق رکاوٹوں کا بھی ذکر کرکے وزیراعظم صاحب کو محتاط رہنے پر زور دیا البتہ اس دوران وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے خاموشی پر اپنی تشویش کا اظہار وزیراعظم کے نام اپنے تفصیلی مکتوب میں کردیا جوان تک پہنچایا گیا۔

مگر میں اس سلسلے میں اب تک مایوس نہیں ہوا اور کچھ مثبت اشارے ہمیں ملنے لگے ہیں میں طرفین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس دوران مکمل سیز فائر کرتے ہوئے مذاکرات کیلئے امن اوراعتماد کی فضا قائم کریں۔اس کیساتھ ہی میں ایک بار پھر وزیراعظم اوردیگر مقتدر حلقوں کو خدا او ررسول کا واسطہ دیکر اپیل کرتا ہوں کہ جنگ کے ذریعہ طاقت آزمائی یا آپریشن سے ہرحالت میں اجتناب کیا جائے۔

کیونکہ خدانخواستہ ایسا کرنے سے یہ آگ پورے ملک میں پھیل جائیگی جو بجھائے نہ بجھے گی۔ مذاکرات کے سلسلے میں انفرادی یا اجتماعی شکل میں جو بھی چینل استعمال کئے جائیں میں سب کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہرتعاون کو عبادت سمجھوں گا۔ کیونکہ یہ پوائنٹس سکورننگ کا وقت نہیں۔کیونکہ کسی ایک انسان کا بچانا پوری انسانیت کو بچانا ہے جبکہ موجودہ صورتحال میں پورے پاکستان اوراس کے اٹھارہ کروڑ باشندوں کے بقا اور سلامتی کا مسئلہ ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کے فوری بعد مولانا سمیع الحق نے طالبان سے رابطے شروع کردیئے تھے تاکہ امن مذاکرات کا عمل شروع کیا جائے البتہ حکومت کی جانب سے یہ بیانات کہ مولانا سمیع الحق کو مذاکرات کا مینڈیٹ نہیں دیاگیا تھا نے مولانا سمیع الحق کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا اور اس کا برملا اظہار بھی انہوں نے کئی مواقع پر کیاہے۔