پشاور پولیو وائرس کا سب سے بڑا گڑھ ہے،عالمی ادارہ صحت،ملک میں اس مرض سے متاثرہ بچوں کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ نوے فیصد پولیو وائرس کا تعلق ’جینیاتی طور‘پشاور سے جڑا ہوا ہے،رپورٹ

ہفتہ 18 جنوری 2014 03:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔18جنوری۔2014ء) عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ نے کہا ہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ کا دارالحکومت پشاور دنیا میں پولیو وائرس کا سب سے بڑا ’گڑھ‘ ہے۔امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق جمعہ کو ڈبلیو ایچ او نے ایک بیان میں کہا کہ ملک میں اس مرض سے متاثرہ بچوں کے جائزے سے پتہ چلا ہے کہ نوے فیصد پولیو وائرس کا تعلق ’جینیاتی طور‘پشاور سے جڑا ہوا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پولیو سے متاثرہ ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں 2012ء کے مقابلے میں 2013 کے دوران پولیو وائرس سے متاثرہ بچوں کی تعداد بڑھی ہے۔بیان میں بتایا گیا کہ علاقائی ریفرنس لیبارٹری کے مطابق پاکستان میں 2013ء میں 91 پولیو کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 83 کا تعلق پشاور میں جینیاتی طور پر متحرک پولیو وائرس سے تھا۔

(جاری ہے)

جب کہ پڑوسی ملک افغانستان میں گزشتہ سال رپورٹ ہونے والے 13 میں سے 12 پولیو کیسز کا تعلق بھی براہ راست پشاور میں پائے جانے والے وائرس سے بتایا جاتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران ملک بھر میں نکاسی آب سے لیے گئے نمونوں کا جائزہ لیا جاتا رہا ہے۔بیان کے مطابق گزشتہ چار سالوں میں پشاور سے نکاسی آب سے 86 نمونے تجزیے کے لیے اکٹھے کیے گئے جن میں سے 72 میں پولیو وائرس کی تشخیص ہوئی۔عالمی ادارہ صحت کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پشاور میں پولیو وائرس کے 45 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے چار گزشتہ سال سامنے آئے۔

ڈبلیو ایچ او کے اعلٰی عہدیدار ڈاکٹر زبیر مفتی نے ا مریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں بتایا کہ پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ پشاور میں تیزی سے بچوں کو اس بیماری سے بچاوٴ کے قطرے پلانے کی مہم بغیر کسی بڑے وقفے کے چلائی جائے۔خیبر پختونخواہ اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں انسداد پولیو کی مہم متعدد بار سکیورٹی خدشات کی وجہ سے تعطل کا شکار رہی ہے جب کہ فاٹا کے تقریبا دو لاکھ سے زائد بچے ہر مہم کے دوران پولیو سے بچاوٴ کے قطرے پینے سے محروم رہ چکے ہیں۔

صوبے میں حکمران جماعت تحریک انصاف نے پولیو کے خاتمے کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے شدت پسندوں سے بھی تعاون کی اپیل کی تھی لیکن اس کے باوجود حالیہ ہفتوں میں مختلف علاقوں میں انسداد پولیو کی ٹیموں پر ہلاکت خیز حملے دیکھنے میں آچکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :