فرقہ واریت کے پر تشدد واقعات اور ہلاکتوں میں اضافے سے پاکستان کے استحکام کے بارے نئے خدشات نے سر اٹھا لیا،مغرب منتظر کہ نواز شریف فرقہ وارنہ تشددروکنے کے قابل ہو جائیں گے،امریکی اخبار ،امریکی رہنماتوقع کر رہے ہیں کہ پاکستان رواں برس علاقائی استحکام برقرار رکھنے میں مدد کرسکتا ہے،رپورٹ

جمعہ 17 جنوری 2014 07:34

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17جنوری۔2014ء )”واشنگٹن پوسٹ“ لکھتا ہے کہ فرقہ واریت کے پر تشدد واقعات اور ہلاکتوں میں اضافے سے پاکستان کے استحکام کے بارے نئے خدشات نے سر اٹھا لیا ہے۔بڑے شہروں میں مختلف فرقوں کے خلاف تشدد اورپروفیشنلز کو نشانہ بنانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔انتہا پسند چاہتے ہیں کہ تعلیم یافتہ اور بہترین اذہان کو ملک چھوڑنے پر مجبورکر دیا جائے۔

یہ بحران ایسے نازک موقع پر جنم لے رہا ہے جب نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہونے جا رہا ہے اورامریکی رہنماتوقع کر رہے ہیں کہ پاکستان رواں برس علاقائی استحکام برقرار رکھنے میں مدد کرسکتا ہے۔تاہم مبصرین کے نزدیک پاکستان میں کسی بھی قسم کی فرقہ وارانہ کشیدگی افغانستان میں آسانی سے داخل ہو سکتی ہے جہاں مذہبی اور نسلی دشمنیاں پہلے ہی پیچ و تاب کی حالت میں ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ برس 687فرقہ وارانہ ہلاکتیں ہوئیں جو 2012 سے 22فی صد زیادہ تھیں۔گزشتہ برس پرتشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں 4725ہلاکتیں ہوئیں۔ ملک بھر میں فرقہ وارانہ بدامنی تسلسل کے ساتھ پھیل رہی۔پاکستان فرقہ وارانہ کشیدگی کے باوجود ایسے بحران سے بڑی حد تک محفوظ ہے جس طرح عراق اور شام ڈوب گیا۔لیکن تجزیہ کار اور کچھ پاکستانی سیاسی رہنما یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ وزیر اعظم نواز شریف 18کروڑ کے جوہری ملک میں امن و امان برقرار رکھ سکے گے۔

فرقہ وارانہ کشیدگی نہ صرف کسی دہشت گردی کے واقعات کے بعد پیدا ہوتی ہے بلکہ مختلف فرقوں میں جھڑپیں بھی معمول بنتی جا رہی ہیں۔امریکی تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ مغربی حکام اور انسانی حقوق گروپ ابھی تک واضح سگنل کے منتظر ہیں کہ نواز شریف مذہبی انتہا پسندی کی بڑھتی ہوئی لہر کو دبانے کے قابل ہو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ فرقہ واریت کی یہ لہر تیزی پکڑے گی۔

ایک ایشیائی تھنک ٹینک کے مطابق1989کے بعد سے سب سے زیادہ فرقہ واریت سے ہلاکتیں گزشتہ برس ہوئیں گزشتہ دو برسوں میں پانچ پانچ سو افراد ہلاک کردیئے گئے،گزشتہ برس راولپنڈی واقعے سے فرقہ ورانہ تشدد میں اضافہ ہوا۔وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ کسی کو بھی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے فرقہ وارانہ گروپوں کے خلاف کریک ڈاو ن شروع کیا ہے اور کراچی میں عسکریت پسندوں کے خلاف چھاپے بھی مارے جا رہے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان کی 66سالہ تاریخ میں زیادہ تر شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان کشیدگی بہت کم تھی۔ محمد علی جناح نے رواداری پر زور دیا۔لیکن 80کی دہائی سے ایسے واقعات میں اضافہ ہوا۔پاکستانی حکام کے مطابق نائن الیون واقعے کے بعد فرقہ واریت نے کشیدہ صورت اختیار کی۔افغانستان میں طالبان حکومت ختم ہوئی اور ان جنجووں نے پاکستان کا رخ کر لیا۔

سرحدیں کمزور ہوئیں اور سیکڑوں لوگوں نے کراچی، لاہور اور دیگر شہروں میں پناہ لی۔نقاب پوش مسلح افراد ایک فرقے کے ڈاکٹروں، وکلاء اور کالج پروفیسروں کے پیچھے لگے ہیں۔ہنگو میں اسکول کو خود کش بمبار نشانہ بنانا چاہتا تھا جسے ایک نویں جماعت کے طالب علم اعتزاز حسن نے جان دے کر ناکام بنا دیا،آج اسے قومی ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہے۔اسی طرح صوفیانہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی ایسے حملوں کی زد میں ہیں۔

کراچی میں ایک مزار پر چھ مزدوروں کا قتل کیا گیاجس میں مزاروں پر نہ آنے کا کیلئے خبردارکرنے کا ایک پیغام بھی چھوڑا گیا،طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی، بڑے شہروں میں پروفیسرز ،ڈاکٹرز اور دانشوروں کو قتل کیا گیا ،ان تمام کو ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھنے کی بنا پر قتل کیا گیا۔رواں برس ملتان میں ایک ڈاکٹر اور پشاور میں بنک منیجر کی ہلاکت اسی کا ایک شاخسانہ ہے۔حال ہی میں ایک ویڈیو میں طالبان نے راولپنڈی واقعے کا بدلہ لینے کی دھمکی دی۔اسلام آباد میں دو مذہبی رہنماو ں کو قتل کردیا گیا جس کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں۔