سینٹ قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ اینڈ سکیورٹی میں زرعی ترقیاتی بینک کے حکام کا ناکامی کا اعتراف،زرعی ترقیاتی بینک 44 ارب روپے سے زائد رقم ڈوبی ہوئی ہے جن کی قرض داروں سے واپسی ناممکن ہے، بینک کو مربوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے تو کاشتکاروں کو دیا جانے والا زرعی قرضہ کی طے شدہ مالیت کو بڑھانا ہوگا،حکومت کو مالی سال کیلئے اضافی رقم دینا ہوگی،کمیٹی

جمعہ 17 جنوری 2014 07:34

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔17جنوری۔2014ء) سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ اینڈ سکیورٹی میں زرعی ترقیاتی بینک کے حکام نے ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک کے چوالیس ارب روپے سے زائد رقم ڈوبی ہوئی ہے جن کی قرض داروں سے واپسی ناممکن ہے اگر بینک کو مربوط بنیادوں پر استوار کرنا ہے تو کاشتکاروں کو دیا جانے والا زرعی قرضہ کی طے شدہ مالیت کو بڑھانا ہوگا اورحکومت کو مالی سال کیلئے اضافی رقم دینا ہوگی ۔

کمیٹی نے زرعی بینک کی کارکردگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ بینک کو درپیش مشکلات کے حوالے سے تحریری طور پر کمیٹی کو آگاہ کرے تاکہ وزارت خزانہ سمیت حکومت کے سامنے بینک کو درپیش مسائل اٹھائے جاسکیں اور ان کا تدارک ہوسکے ، کمیٹی میں انٹلچکوئل پراپرٹی بل اور سیڈ ایکٹ بل پر اتفاق رائے نہ ہوسکا ۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ اینڈ سکیورٹی کااجلاس چیئرمین کمیٹی سید مظفر حسین شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔

اجلاس میں اراکین کمیٹی ، وفاقی وزیر سردار سکندر حیات بوسن ، چیئرمین زرعی ترقیاتی بینک ، ایگری کلچرل ریسرچ کونسل اور آئی پی او کے حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس میں کمیٹی کو بتایا گیا کہ انٹلکچوئل پراپرٹی بل کی تیاری کے حوالے سے وزارت قانون و انصاف کے ساتھ مشاورت جاری ہے جونہی مشاورت مکمل ہوگی تو کمیٹی کے سامنے لائینگے اور سیڈ ا یکٹ بل کی تیاری کے حوالے سے صوبوں سے مشاورت جاری ہے جونہی مشاورت مکمل ہوگی معاملہ کمیٹی کے سامنے لائینگے اور وزارت قانون و انصاف سے بھی قانونی مدد حاصل کرینگے ۔

کمیٹی نے کہا کہ صوبوں سے مشاورت مکمل کرکے جلد ہی کمیٹی کے سامنے بل کی صورت میں لایا جائے گا تاکہ ایگری کلچرل سنٹرز کے تجربات کا فائدہ عام کاشتکاروں کو بھی پہنچ سکے ۔ وفاقی وزیر سردار سکند حیات بوسن نے کہا کہ ایگری ایکسٹینشن اور ریسرچ کا شعبہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو تاکہ اس کا فائدہ چھوٹے کاشتکار کو بھی ہو ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ایکسٹینشن سروس کا فائدہ چند مخصوص لوگ اٹھا رہے ہیں جبکہ چھوٹے کاشتکار اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ زراعت کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی حکومت کاشتکاروں کو کاشتکاری کے حوالے سے رابطہ کو بہتر بنائے اور آئندہ اجلاس میں کمیٹی کو بریف کرے ۔ اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک کے ڈیفالٹر چھوٹے کاشتکار ہیں جن بے چاروں کی پانچ لاکھ سے زائد رقم نہیں ہے اس موقع پر چیئرمین زرعی ترقیاتی بینک نے کہا کہ 1961ء سے لیکر اب تک زرعی ترقیاتی بینک نے 54ارب روپے کے قرضے دیئے ہیں اور کاشتکاروں کو قرضے دیئے گئے قرضوں کی واپسی کی صورت میں دیئے جاتے ہیں جبکہ اس وقت زرعی ترقیاتی بینک کا چوالیس ارب روپے سے زائد قرض داروں میں ڈوبے ہوئے ہیں جو کہ زرعی ترقیاتی بینک نے لینے ہیں حکومت زرعی ترقیاتی بینک کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے قرضوں کا دائرہ کار بڑھائے اور ہر مالی سال حکومت پیسے دے تاکہ کاشتکار زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک کے زونل آفسز قرضوں کی وصولی کے حوالے سے کیا کام کررہے ہیں اس حوالے تفصیلی رپورٹ دی جائے ۔ اس موقع پر وفاقی وزیر نے کہا کہ زرعی بینک وہ واحد بینک ہے جس کا رابطہ ملک بھر میں کاشتکاروں کے ساتھ وابستہ ہے اور زرعی ترقیاتی بینک پچیس سال پرانی طرز پر چل رہی ہے اس کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے وزارت خزانہ کے ساتھ معاملات کمیٹی اٹھائے ۔ وزارت کمیٹی کی ہر ممکن مدد کرنے کیلئے تیار ہے ۔ کمیٹی نے وزارت نیشنل فوڈ اینڈ سکیورٹی سے متعلقہ اداروں کی پراگریس رپورٹ طلب کرلی ہے ۔

متعلقہ عنوان :