لاپتہ خاور محمود کیس،پولیس نے تمام ذمہ داری حساس اداروں پر ڈال دی، عدالت کا لاپتہ شخص کو پیش نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہار،جو مرضی کرو ہر حال میں خاور محمود اگلی تاریخ سماعت پر چاہیے،ڈی پی او کو حکم، یہ زبردستی اٹھائے جانے کا مقدمہ ہے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل،مایوسی بڑھ رہی ہے ،شہریوں کی آزادی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے،جسٹس جواد، بادی النظر میں لاپتہ افراد کیسز میں حساس ادارے ہی مبینہ طور پر ملوث ہیں ،ریمارکس

جمعرات 16 جنوری 2014 04:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔16جنوری۔2013ء) سپریم کورٹ میں فورٹ عباس سے لاپتہ خاور محمود کیس میں پولیس نے تمام ذمہ داری حساس اداروں پر ڈال دی جبکہ عدالت نے لاپتہ شخص کو پیش نہ کرنے پر سخت برہمی کا اظہارکرتے ہوئے ڈی پی او احسن اسماعیل کو سختی سے حکم دیا ہے کہ جو مرضی کرو ہر حال میں خاور محمود اگلی تاریخ سماعت پر چاہیے اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھرنے عدالت کو بتایا ہے کہ خاور محمود کا معاملہ اغواء کا لگتا ہے اس واقعہ کے عینی شاہدین بھی موجود ہیں چار لوگوں نے اس حوالے سے بیانات حلفی بھی جمع کروائے ہوئے ہیں یہ زبردستی اٹھائے جانے کا مقدمہ ہے ۔

بدھ کے روز جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی ۔ دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ حساس اداروں کو آپ جو مرضی کرلیں ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کچھ بھی نہیں کرنا حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کی مایوسی بڑھ رہی ہے آرٹیکل 9اور 10 کے تحت شہریوں کی آزادی کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے بادی النظر میں لاپتہ افراد کے مقدمات میں حساس ادارے ہی مبینہ طور پر ملوث ہیں ۔

انہوں نے یہ ریمارکس گزشتہ روز دیئے ہیں ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر ، آمنہ مسعود جنجوعہ ، ڈی پی او احسن اسماعیل اور پنجاب کے حکام پیش ہوئے دالت میں بوٹا نامی پولیس افسر بھی پیش ہوا اور کہا کہ خاور محمود کا بھائی مبینہ طور پر پرویز مشرف حملہ میں ملوث سمجھا گیا مگر تحقیقات میں یہ ثابت نہیں ہوا لاپتہ کے والد نے ایجنسیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کے بیٹے کوگرفتار کرنے آئے تھے مگر وہ نہ مل سکا جس پر حساس ادارے خاور محمود کو لے گئے ہیں ۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ جس پولیس افسر بوٹا پر الزام تھا کہ وہ بھی موجود ہیں آئی جی نے بھی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ۔ پولیس نے رپورٹ دی ہے کہ سات روز بعد ہی ایف آئی آر درج کرلی گئی ے اس کو حساس اداروں نے اٹھایا ہے تین جولائی 2013ء کو مقدمہ درج کیا گیا ہے۔جسٹس جواد نے کہا ہے کہ اگر اس مقدمے کا بھی تعلق حساس اداروں سے ثابت ہورہا ہے کہ اس کو دیکھنا پڑے گا ۔

کمیشن میں بھی اس کی سماعت ہورہی ہے آئی بی کو ہدایت کی گئی تھی ۔ جسٹس جواد نے کہا کہ وہاں مسئلہ حل ہوتا ہے یا نہیں ہم نے تو دیکھنا ہی ہے حساس اداروں کو جتنی بار مرضی لکھ لیں وہ کچھ نہیں کریں گے جب بھی ایجنسی کی ضرورت پڑے گی تو اس سے رابطہ کیاجائے گا ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کو بلوائیں اب معاملہ ان کے بس سے نکل آیا ہے عدالت نے رپورٹ کی کاپی آمنہ کو دینے کی ہدایت کی۔

جسٹس جواد نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ان معاملات میں حساس ادارے ہی مبینہ طورپر ملوث ہیں ہم نے سمجھا تھا کہ پولیس ملوث ہے مگر اب ان کی بھی رپورٹ آگئی ہے کہ اس معاملے میں بھی حساس ادارے ملوث ہیں۔ بعد ازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ خاور محمود ایک کمپنی کے دفتر میں موجود تھا کہ اسے گاڑیوں میں مسلم لوگ آگے اور اٹھا کر لے گئے جس علاقے میں خوف کی فضا بھی پیدا ہوئی۔ جبری گمشدگی کا مقدمہ ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ پولیس کو ایک موقع اور دے دیتے ہیں دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں ہمیں تو ہر حال میں لاپتہ شخص چاہیے پولیس 23 جنوری کو لاپتہ شخص کو عدالت میں پیش کرے ۔

متعلقہ عنوان :