عمران خان صوبائی حکومت پر صرف اظہار مایوسی ہی نہیں بلکہ مزید اقدامات کریں،سینٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان کا مطالبہ، وفاقی حکومت سے طالبان سے مذاکرات پر پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس بلانے کا مطالبہ، امیر مقام کو اس لئے نشانہ بنایا گیا کہ اس نے بھتہ دینے سے انکار کیا تھا،افراسیاب خٹک،صوبائی حکومت نے خیبر پختونخواہ کو ویران کردیا ہے،حالات قابو سے باہرہیں،زاہد خان،عمران خان وزیر اعلیٰ سے مایوس ہیں تو اپنی حکومت تحلیل کرنے پر سوچیں،مولانا حیدری،وفاقی حکومت طالبان سے معاہدہ کے بعد سامنے لائے گی تو مناسب نہ ہوگا،رضاربانی،تحریک انصاف خود کو عقل کُل سمجھتی ہے،مدد کی پیشکش سے بھی گھبراتے ہیں،مشاہد اللہ،عمران نے دہشت گردی کے خلاف قوی اتفاق رائے بننے سے روکا،مورخ انہیں معاف نہیں کرے گا،فرحت اللہ بابر

منگل 14 جنوری 2014 07:33

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔14جنوری۔ 2013ء)سینیٹ میں حکومتی اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے اور عوام الناس کے جان ومال کی حفاظت میں ناکامی پر شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ صوبائی حکومت پر صرف اظہار مایوسی ہی نہ کریں بلکہ مزید اقدامات کریں اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے بارے میں پارلیمنٹ کا ان کیمرہ مشترکہ اجلاس بلا کر اعتماد میں لیا جائے کیونکہ یہ صرف حکومت کا نہیں بلکہ تمام ملک کا معاملہ ہے۔

پیر کے روز سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر حاجی عدیل نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخواہ میں حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں اور صوبائی حکومت اس معاملے میں ذرا برابر دلچسپی نہیں لے رہے خیبر پختونخواہ میں لوگ کارخانے بند کرکے جارہے ہیں جس کی وجہ سے عوام سے روزگار چھینا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

خیبر پختونخواہ میں سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو چن چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن صوبائی حکومت کے کرتا دھرتا اس میں ذرا بھی دلچسپی نہیں لے رہے۔

انہوں نے کہا کہ ایوان کی کارروائی معطل کرکے اس معاملے پر بحث کرائی جائے اس پر چیئرمین سینیٹ نیئر حسین بخاری نے قائد ایوان راجہ ظفر الحق سے رائے طلب کی تو انہوں نے کہاکہ خیبر پختونخواہ میں حالات واقعی ڈگرگوں ہیں اس لئے ایوان اس پر بات کرنا چاہے تو کی جاسکتی ہے جس پر میاں رضا ربانی نے تجویز دی کہ اس پر حکومتی اور حزب اختلاف کے دو دو ارکان بات کرلیں جس پر چیئرمین نے عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر افرا سیاب خٹک سے اس معاملے پر اظہار خیال کیلئے کہا۔

افرا سیاب خٹک نے کہا کہ فاٹا کے حالات صوبے کے دیگر علاقوں میں بھی پھیلتے جارہے ہیں اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں تمام امیر لوگ دہشت گردوں کو بھتہ دے رہے ہیں اور امیر مقام کو بھی صرف اس لئے دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا کہ اس نے دہشت گردوں کو بھتہ دینے سے انکار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت پر اظہار مایوسی کررہے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے انہیں اس سے آگے بھی تجاویز دینی چاہئیں۔

افرا سیاب خٹک نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے صنعتکار کارخانے بند کرکے پنجاب لے جارہے ہیں جس کی وجہ سے صوبے میں غربت اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ ٹرانسپورٹ اور علاقائی تجارت خیبر پختونخواہ کے عوام کیلئے بڑا ذریعہ معاش ہے لیکن تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے نیٹو سپلائی بند کرکے دونوں ذرائع سے آمدنی مسدود کردیئے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان کا کہنا تھاکہ صوبائی حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے اس کے علاوہ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف کوئی بھی پالیسی نہیں بنائی۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے حکیم الله محسود کی ہلاکت کے بعد دہشت گردی کے خلاف آپریشن روک دیاتھا لیکن اس دوران دہشت گردوں نے اپنے آپ کو مضبوط کیا اور اب وہ تابر توڑ حملے کررہے ہیں۔

تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے خیبر پختونخواہ کو ویران کردیا ہے اور وہاں پر حالات قابو سے باہر ہوگئے ہیں۔ بلوچستان کے سینیٹر عبدالرؤف نے کہا کہ امن و امان کا قیام صوبائی معاملہ ہے لیکن کے پی کے کی صوبائی حکومت اس پر توجہ نہیں دے رہی، اس کی وجہ سے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء نشانہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے سابق نائب صدر میاں مشتاق بھی دہشت گردی کے حملے میں ہلاکت پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ عمران خان اپنی صوبائی حکومت سے مایوسی کے ساتھ ساتھ مزید اقدامات بھی اٹھائیں۔

جے یو آئی ف کے سینیٹر عبدالغفور حیدری نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف کوئی پالیسی نہیں بنائی اور عمران خان جو کہ انتخابات سے قبل خیبر پختون خواہ کو مثالی صوبہ بنانے کا دعویٰ کرتے تھے آج وہ اپنی جماعت کی ناکامی کی وجہ سے پشاور نہیں جاسکتے بلکہ لاہور اور کراچی کا رخ کر تے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں پے درپے دہشت گردی کے واقعات ہورہے ہیں لیکن حکمران جماعت ان کی مذمت کی بجائے دیگر معاملات پر اظہار رائے کرنے میں مشغول ہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے واقعات کو روکنے کیلئے ایک متفقہ طریقہ کار وضع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان اگر وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ سے مایوس ہیں تو وہ اپنی حکومت کو تحلیل بھی کر سکتے ہیں اس بارے میں وہ سنجیدگی سے سوچیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر میاں رضا ربانی نے میاں مشتاق کی ہلاکت اور امیر مقام پر دہشت گردی کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔

انہوں نے کہا کہ گیارہ مئی کے انتخابات سے قبل ایک سیاسی جماعت یہ دعویٰ کرتی تھی کہ ان کے پاس جادو کی چھڑی ہے جسے وہ ہلا کر حالات کو ایک دم ٹھیک کردے گی لیکن آج کے پی کے میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کو سیاسی ملکیت حاصل نہیں ہے کیونکہ وزیر اعلیٰ کے پی کے اور وہاں کی کابینہ کے ارکان دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے جنازوں میں شرکت نہیں کرتے جس کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار حوصلے ہار رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ امن و امان کا قیام صوبائی معاملہ ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ وفاقی حکومت کا معاملہ ہے اس لئے وفاقی حکومت کی خاموشی بھی معنی خیز ہے،وفاقی حکومت نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران قومی سلامتی پالیسی نہیں اختیار کی اس کے علاوہ وزیر داخلہ نے جن طالبان گروپوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے ان کی تفصیلات بھی نہیں بتائیں۔وفاقی حکومت کو چاہیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ ان کیمرہ اجلاس بلا کر اس بارے میں پارلیمنٹ کو اعتمادمیں لے۔

میاں رضا ربانی نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت طالبان کے ساتھ معاہدہ طے کرنے کے بعد اس کو عوام کے سامنے لائے گی تو یہ مناسب نہ ہوگا،اس معاملے کو کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل پارلیمنٹ کے سامنے لایا جائے۔سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ جب تک طالبان سے مذاکرات کسی انجام تک نہیں پہنچتے اس وقت تک دہشت گردی کے خلاف وفاقی حکومت اپنی کارروائی جاری رکھے اور اس معاملے کو کسی اور سمت میں نہ جانے دے بلکہ فیصلہ سازی کرکے اس پر ڈٹی رہے۔

سینیٹر احمد حسن کا کہنا تھا کہ کے پی کے کی صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی دہشت گردی کے خلاف کارروائی سے قاصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب دہشت گردی کاجن کے پی کے سے نکل کر ملک کے دیگر حصوں کو نشانہ بنارہا ہے۔ پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ تحریک انصاف سے نہ صرف عمران خان بلکہ کے پی کے کی تمام عوام اور پوری قوم مایوس ہے تحریک انصاف کے چیئرمین نے دہشت گردی کے خلاف قوی اتفاق رائے بننے سے روکا تھا چونکہ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد ان کے بھائی ہیں اور انہوں نے دہشت گردی کے واقعات کو نیٹو سپلائی اور ڈرون حملوں سے منسوب کردیا تھا،ان کا کہنا تھا کہ آنے والا مورخ عمران خان کو کبھی معاف نہیں کرے گا کیونکہ انہوں نے دہشت گردوں کو ریاست کے اندر ریاست قرار دے کر ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بات کی تھی۔

بلوچ سینیٹر کلثوم پروین کا کہنا تھا کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور جو پارٹی عوام کی توقعات پر پوری نہیں اترتی اسے خود اپنے آپ کو اقتدار سے الگ کرلینا چاہیے۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر مشاہد الله خان نے کہا کہ تحریک انصاف وہ سیاسی جماعت ہے جو کہ اپنے آپ کو عقل کُل سمجھتی ہے اور وفاقی حکومت انہیں امن و امان کے قیام کیلئے مدد دینے کی تجویز دینے سے بھی گھبراتی ہے۔

انہوں نے پیشکش کی کہ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے امن و امان کے قیام کیلئے جو بھی مدد چاہے تو اسے فراہم کی جائے گی ان کا کہنا تھاکہ سندھ کی صوبائی حکومت نے سیاسی عزم کے ساتھ اقدامات کئے ہیں جس کی وجہ سے وہاں پر امن و امان کے حالات بہتر ہوئے ہیں لیکن کے پی کے میں ایسی صورتحال نہیں ہے انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے درست طور پر کہا ہے کہ مذاکرات صرف مذاکرات کرنے والوں سے ہوں گے اور گولی کی زبان سے بات کرنے والوں سے بات چیت نہیں ہوگی تاہم طالبان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کے بارے میں چوہدری نثار جب مناسب سمجھیں گے ایوان کو اعتماد میں لیں گے۔

انہوں نے بھی میاں مشتاق کی ہلاکت اور امیر مقام پر حملے کی شدید مذمت کی اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔