قومی اسمبلی کی امور داخلہ کمیٹی اس تحفظ پاکستان آرڈیننس اور انسداد دہشت گردی ترمیمی بل پر اتفاق نہ ہو سکا،وزارت داخلہ کو آئندہ اجلاس میں ہر صورت ترامیم پیش کرنیکی ہدایت،اگر اس ماہ یہ قانون پاس نہ کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بلیک لسٹ ہونے کے خطرات 100فیصد بڑھ جائیں گے،وزارت داخلہ کے حکام کا انتباہ،ارکان کمیٹی کا انسانی حقوق کی پاسداری اور شفاف ٹرائل کو یقینی بنانے کا مطالبہ

جمعرات 9 جنوری 2014 07:48

اسلام آباد( آن لا ئن) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ کا دوسرا اجلاس بھی انسدا دہشت گردی (ترمیمی ) بل 2013اور تحفظ پاکستان آررڈنینس ( پی پی او) 2013پر اختلاف کی نذر ہوگیا۔کمیٹی نے وزارت داخلہ کو کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قوانین میں مجوزہ ترامیم کو ہر صورت پیش کر کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے ۔کمیٹی کے ممبران کی اکثریت نے نئے قانون کے تحت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور کسی ملزم کو بغیر کوئی وجہ بتائے 90روز تک حراست میں رکھنے کی شقوں کی شدید مخالفت کرتے ہوئے انہیں بنیادی انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے جبکہ وزارت داخلہ کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا ہے کہ اگر اس ماہ یہ قانون پاس نہ کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بلیک لسٹ ہونے کے خطرات 100فیصد بڑھ جائیں گے۔

کمیٹی کا اجلاس بدھ کے روز چیئرمین کمیٹی رانا شمیم احمد خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاوٴس منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزیر مملکت برائے داخلہ میاں بلیغ الرحمن،کمیٹی ممبران محمد اکرم خان ،نعیمہ کشور خان،سید جاوید علی شاہ،نواب محمد یوسف تالپور،احسان الرحمن مزاری،شیر اکبر خان،نبیل گبول،سید آصف حسنین، نبیل گبول، تہمینہ دولتانہ،ڈاکٹر عارف علوی،عیسیٰ نوری ،وزارت دارت داخلہ اور وزارت قانون و انصاف کے افسران نے شرکت کی۔

اس موقع پر وزارت داخلہ کے ایڈیشنل سیکرٹری عبداللطیف نے انسداد دہشت گردی ترمیمی آرڈیننس 2013ء کمیٹی کے سامنے پیش کیا اور نیشنل کاؤنٹر ٹیرارزم اتھارٹی(نیکٹا)کے آفیسر عامر خواجہ سے استدعا کی کہ وہ کمیٹی کو مذکورہ آرڈیننس کے بارے میں بریفنگ دیں۔عامر خواجہ نے کمیٹی کو بتایا کہ نئے آرڈیننس میں دہشت گردی کے انسداد کیلئے تمام ضروری اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور اس حوالے سے قانون سازی کی گئی ہے۔

اس موقع پر کمیٹی کو بتایاگیا کہ اگر10فروری تک مذکورہ قانون قومی اسمبلی سے پاس نہ کیا گیا تو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ 100فیصد بڑھ جائے گا۔عامر خواجہ نے کمیٹی کو آرڈیننس کی مختلف شقوں اور سب شقوں کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ مذکورہ قانون کے سیکشن الیون ای ای ای کے تحت ٹارگٹ کلرز،اغواء برائے تاوان کے ملزمان،بھتہ خوروں اور دہشت گردی کی سنگین نوعیت میں ملوث ملزمان کیخلاف مقدمات درج کرکے کارروائی شروع کی جاسکے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ گرفتار ملزمان کیخلاف انکوائری کمیٹی تشکیل دی جائے گی اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ایس پی سطح کے افسر کی زیر نگرانی تحقیقات کرے گی۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں قانون نافذ کرنیوالے دیگر اداروں کے افسران و اہلکار بھی شامل ہوں گے۔جس پر کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر عارف علوی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کو بتایا جائے کہ قابل اعتماد اطلاع کا معیار کیا ہوگا اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے حوالے سے بھی ٹھوس وضاحت پیش کی جائے،پولیس کے افسر کا رینک تو واضح کردیا گیا ہے مگر قانون نافذ کرنیوالے دیگر اداروں کے افسران کے رینک کیا ہوں گے اور کمیٹی کے کورم کے بارے میں بھی کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔

جس پر کمیٹی میں موجود وزیرمملکت برائے داخلہ میاں بلیغ الرحمن نے کہا کہ زیادہ تر مشترکہ تحقیقاتی کمیٹیوں کی سربراہی پولیس کرتی ہے،اس لئے پولیس کا رینک دے دیا گیا ہے،دیگر اداروں کے افسران یا اہلکاروں کے رینک دینے کی ضرورت نہیں اور اگر کورم کی شرط رکھ لی گئی تو تحقیقاتی کام طوالت کا شکار ہوسکتا ہے۔نیکٹا کے نمائندے نے کمیٹی کو آرڈیننس کے سیکشن18اور19کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ جرائم کی تحقیقات محکمہ پولیس کا انسپکٹر سطح کا افسر کرے گا اور 13روز میں تحقیقات مکمل کرنا لازم ہوگا،جس پر نواب یوسف تالپور نے کہا کہ اس قانون میں جو بھی تبدیلیاں کی جائیں اس حوالے سے تمام صوبوں کو بھی اعتماد میں لیا جائے کیونکہ سندھ حکومت مذکورہ آرڈیننس کی صوبائی سطح پر حمایت کر رہی ہے جبکہ پیپلزپارٹی سینیٹ میں اسی آرڈیننس کی مخالفت کر رہی ہے۔

اس موقع پر کمیٹی میں موجود ایم کیوایم کے رکن قومی اسمبلی نبیل گبول نے کہا کہ 4ماہ قبل سیاسی طور پر انہیں ایک قتل کے مقدمہ میں ملوث کیا گیا تھا اور مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ابھی تک کوئی کارروائی شروع نہیں کی اور نہ ہی رپورٹ پیش کی ہے بلکہ ہر بار مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کسی افسر کی غیر موجودگی کے باعث انہیں اگلی تاریخ دے دیتی ہے،انہیں سیاسی طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کیخلاف بھی ذوالفقار علی بھٹو طرز پر مقدمہ بنایا جارہا ہے،لہٰذا مذکورہ قانون میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سیاسی مداخلت کے بغیر شفاف طریقے سے تحقیقات کو یقینی بنائے گی۔

جس پر چےئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس آرڈیننس میں اس بات کو بھی شامل کیا جائے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سرکاری اداروں کے افسران و اہلکاروں کیخلاف بھی سخت سے سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔جس پر نیکٹا کے نمائندے خواجہ عامر نے کہا کہ وہ کسی انفرادی کیس کا ذکر نہیں کررہے بلکہ مجموعی طور پر قانون کے حوالے سے بریفنگ دے رہے ہیں،ان کے اس جملے پر کمیٹی ممبر نبیل گبول برہم ہوگئے اور کہا کہ وہ ایک معزز رکن اسمبلی ہیں،اگر ان کے ساتھ ایسا ہورہا ہے تو عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوگا،آپ کمیٹی کو کیا بریف کر رہے ہیں،میں نے اپنے کیس کی مثال اس لئے دی ہے کہ اس حوالے سے قانون میں ضروری ترامیم کی جاسکیں۔

جس پر کمیٹی میں موجود وزیرمملکت برائے داخلہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون ابھی لاگو نہیں ہوا،ہم کوشش کر رہے ہیں کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنائیں اور ہر شہری کے ساتھ مساوی سلوک کیا جائے۔کمیٹی میں موجود جے یو آئی (ف) کی رکن اسمبلی نعیمہ کشور خان نے کہا کہ مذکورہ آرڈیننس اور تحفظ پاکستان آرڈیننس(پی پی او)کے تحت تین ماہ کیلئے کسی ملزم کو حراست میں لینا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے،لہٰذا اس حوالے سے ضروری ترمیم کو لازمی بنایا جائے۔

اس پر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ قوانین بننا ضروری ہیں لیکن ان کا غلط استعمال نہ کیا جائے۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم،کسی ملزم کی حراست،تحقیقات،مقدمے کا چالان اور دیگر پہلوؤں پر بھی بریفنگ دی جائے۔جس پر نیکٹا کے نمائندے نے کمیٹی کو بتایا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کیلئے وقت کی حد مقرر کی گئی ہے جس کے مطابق آرڈیننس کے سیکشن 5کے تحت مقدمے کا چالان 30دن میں پیش کیا جائے گا اور چالان مکمل نہ ہونے کی صورت عبوری چالان پیش کیا جائے گا،جس کی بنیاد پر عدالت مقدمے کا ٹرائل شروع کرسکے گی جبکہ سی آر پی سی کے قوانین میں بھی کسی ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کیلئے 24گھنٹے لئے گئے ہیں،یہ قوانین بھی لاگو ہوسکتے ہیں۔

اس پر کمیٹی میں موجود ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی سید آصف حسنین نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ملوث ہو یا نہ ہو ایک ماہ بعد عبوری چالان کی بنیاد پر اسے مقدمے کا حصہ بنا دیا جائے گا اور مزید تین ماہ اس قانون کے تحت پولیس یا رینجرز کو مل جائیں گے اور اگر ان تین ماہ میں بھی مقصد پورا نہ ہوا تو آئین کے آرٹیکل 10کا سہارا لیکر مزید تین ماہ کیلئے کسی ملزم کی حراست میں توسیع کردی جائے گی،لہٰذا یہ دفعات بنیادی انسانی حقوق کے متصادم اور خلاف ہیں،ان کو تبدیل کیا جائے اور پھر ٹرائل کو یقینی بنایا جائے۔

نیکٹا کے نمائندے خواجہ عامر نے کمیٹی کو بتایا کہ اگر کوئی گواہ عدالت میں پیش نہ ہونا چاہئے تو وہ ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کروا سکے گا،اس لئے فارنسک ڈیٹا اور الیکٹرانک ڈیٹا کی بنیاد پر بھی تحقیقات کے عمل کو آگے بڑھایا جاسکے گا اور اس حوالے سے آرڈیننس کے سیکشن 27Aکے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔اس پر تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ صرف ویڈیو الیکٹرانکس شواہد کو بنیاد نہ بنایا جائے بلکہ عینی شاہد کی شرط کو بھی شامل کیا جائے کیونکہ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بھی کسی شہری کیخلاف ہوسکتا ہے اور یوں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوں گے،جس پر وزیرمملکت برائے داخلہ نے وضاحت کی کہ اس حوالے سے تمام ضروری اقدامات کئے جائیں گے اور دہشت گردی الزامات کا سامنا کرنے والے ملزمان کیخلاف شفاف ٹرائل کو یقینی بنایا جائے گا۔

کمیٹی میں موجود بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن اسمبلی عیسیٰ نوری نے کہا کہ قانون سب کیلئے یکساں ہونا چاہئے مگر قانون کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جائیں،اس وقت سب سے زیادہ لاپتہ افراد بلوچستان میں ہیں اور90دن والی شرط کے بعد لاپتہ افراد کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو قانونی تحفظ مل جائے گا،جس پر میاں بلیغ الرحمن نے کہا کہ لاپتہ افراد کا بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن آئین کے آرٹیکل 10کو دیکھ لیں جو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ریاست کے قانون اور آئین پاکستان کی مخالفت کرنے والے اور نہ ماننے والے ملزمان کو تحقیقات کیلئے 90دن تک حراست میں رکھا جاسکتا ہے،جس پر کمیٹی ممبران نے اصرار کیا کہ پھر اس شق کو آرڈیننس سے ختم کردیا جائے اور آئین کے آرٹیکل 10کا سہارا لیا جائے۔

اس موقع پر کمیٹی چےئرمین نے کہا کہ پوری دنیا میں مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات لگائے جاتے ہیں مگر مسلمان صرف مسلمان ہوتا اور دہشت گرد دہشت گرد ہوتا ہے،دہشت گردوں کیخلاف بننے والے قانون کی مخالفت نہ کریں اور اس کو پاس ہونے دیں تاہم کمیٹی ممبران کے اکثریت کی مخالفت کے باعث ضروری ترامیم اور مذکورہ سفارشات شامل کرنے کیلئے کمیٹی اجلاس پیر تک ملتوی کردیا گیا ہے۔