مقبوضہ کشمیر میں داخلی سلامتی کیلئے مسلح افواج کی تعیناتی پر ریفرنڈم کا مطالبہ، پرشانت بھوشن کے بیان پر شدید تنقید، خود ان کی پارٹی نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ،کشمیر انڈیا کا اٹوٹ حصہ ہے،یہ کہنے کی ضرورت نہیں ، میں اس نظریے سے اتفاق کرتا ہوں، بھوشن کا یوٹرن

منگل 7 جنوری 2014 07:57

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔7جنوری۔2014ء) بھارت کے سیاسی افق پر حال ہی میں ابھرنے والی عام آدمی پارٹی کے ایک سینیئر رہنما پرشانت بھوشن نے کہا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں داخلی سلامتی کے لیے مسلح افواج کی تعیناتی پر حتمی فیصلہ ریفرینڈم کے ذریعہ کیا جانا چاہیے۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھوشن کے بیان پر سخت رد عمل سامنے آیا ہے اور خود ان کی پارٹی نے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔

پرشانت بھوشن سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل ہیں اور عام آدمی پارٹی کے بانیوں میں شامل ہیں۔ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’ہماری پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دستور ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے کشمیر کے عوام کی آرزووٴں کے مطابق یہ فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ داخلی سلامتی کے لیے وہاں فوج رہے یا نہ رہے۔

(جاری ہے)

بیرونی خطرات کے بارے میں فیصلہ تو وفاقی حکومت کرے گی لیکن داخلی سلامتی کے لیے۔

۔۔ مقامی لوگوں کی مرضی کے خلاف وہاں فوج نہیں رہنی چاہیے اور اس کے لیے ریفرینڈم کرایا جاسکتا ہے۔‘پرشانت بھوشن دو سال پہلے بھی مسئلہ کشمیر پر اپنی متنازع رائے ظاہر کر چکے ہیں اور اس وقت ان کے بیان کا یہ مطلب نکالا گیا تھا کہ اگر کشمیری آزادی چاہتے ہیں تو انھیں طاقت کے زور پر نہیں روکا جانا چاہیے۔ اس بیان کے بعد کچھ نوجوانوں نے ان کے دفتر میں گھس کر انھیں مارا پیٹا بھی تھا۔

دہلی میں عام آدمی پارٹی کے لیڈر اور وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ یہ پرشانت بھوشن کی ذاتی رائے ہے جس سے پارٹی کا کوئی سروکار نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ ’پرشانت بھوشن نے جو کچھ کہا ہے پارٹی اس سے بالکل متفق نہیں ہے، فوج کو کہاں تعینات کیا جائے یہ فیصلہ خطرے کی نوعیت کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے اور اس میں ریفرینڈم ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

‘عام آدمی پارٹی جمہوریت کے ایک ایسے ماڈل کی وکالت کرتی ہے جس میں تمام اہم فیصلے مقامی لوگوں کی رائے سے ہی کیے جائیں۔ دلی میں حکومت بنانے سے پہلے بھی پارٹی نے پورے شہر میں چھوٹے چھوٹے جلسے کر کے لوگوں کی رائے معلوم کی تھی اور اس کے بعد ہی اقلیتی حکومت بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔اروند کیجریوال کے بیان پر علیحدگی پسند کشمیری رہنما یاسین ملک نے کہا کہ اقتدار میں آنے کے بعد پارٹی نے اپنی رائے بدل لی ہے۔

ادھر بی جے پی نے سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر بھوشن علیحدگی پسندوں کی زبان بول رہے ہیں۔"پرشانت بھوشن نے جو کچھ کہا ہے پارٹی اس سے بالکل متفق نہیں ہے، فوج کو کہاں تعینات کیا جائے یہ فیصلہ خطرے کی نوعیت کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے اور اس میں ریفرینڈم ہونے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔" سخت تنقید کے بعد پرشانت بھوشن نے ایک بیان میں کہا کہ ’عام آدمی پارٹی کا نظریہ ہے کہ کشمیر انڈیا کا اٹوٹ حصہ ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں اس نظریے سے اتفاق کرتا ہوں۔

ریفرینڈم کے ذکر سے یہ مطلب نہیں نکالا جانا چاہیے کہ ہم کشمیر کے الحاق پر ریفرینڈم کی بات کر رہے ہیں۔‘عام آدمی پارٹی نے پیر کو ہی یہ اعلان کیا ہے کہ وہ پارلیمانی انتخابات میں زیادہ تر حلقوں سے الیکشن لڑے گی اور اب نگاہیں اس بات پر مرکوز ہیں کہ وہ اہم قومی مسائل پر کیا موقف اختیار کرتی ہے۔

متعلقہ عنوان :