کیا پرویز مشرف واقعی حکومت کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں؟،مشرف کی فوجی ہسپتال میں منتقلی اور بدلتی صورتحال میں مبصرین سوال اٹھانے لگے،حکومت کے اہم عہدیداروں کی رائے میں اختلاف اور ایک ”خاموش اکثریت“ کاحکومت کو صبر کے مظاہرہ کا مشورہ اہمیت اختیار کر گیا،سعودی وزیر خارجہ کا (آج) سے شروع ہونے والا دورہ پاکستان اہم حیثیت اختیار کر گیا ،سعودی عرب سمیت کوئی بھی تیسری قوت یا خود فوج حکومت اور مشرف کے درمیان اس ٹکراؤ کی صورت حال میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں،مبصرین

پیر 6 جنوری 2014 08:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔6جنوری۔ 2014ء)سابق صدر اور پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دل کی مبینہ تکلیف کے بعد اے ایف آئی سی جیسے امراض قلب کے فوجی ادارے میں داخلے کے بعد سے پیدا ہونے والی صورت حال میں سیاسی مبصرین کا یہ سوال اہم حیثیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا پرویز مشرف واقعی حکومت کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں؟ جنہیں وہ نہ اگل سکتی ہے اور نہ ہی نگل سکتی ہے جبکہ سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعود الفیصل کا (آج) پیر سے شروع ہونے والا دورہ پاکستان بھی اس حوالے سے اہم حیثیت اختیار کر گیا ہے۔

لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ پرویز مشرف کے معاملے پر اہم حکومتی عہدیداروں کی رائے میں اختلاف نظر آتا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ وہ سابق آمر کے خلاف خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں جس کا واضح اظہار گزشتہ روز وزیر اعظم محمد نواز شریف کی وہ بات چیت ہے جس میں انہوں نے تمام تر ملبہ عدالت پر ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ ملک اور آئین خود پرویز مشرف کے خلاف مدعی ہیں اور اس میں انصاف عدالت نے کرنا ہے اور اسے فیصلہ کرنا ہوگا کہ مشرف معصوم ہیں یا مجرم! اور اس قسم کا بیان ان کی واضح بے بسی کا اظہار ہے، دوسری جانب اسی روز وزیر دفاع خواجہ محمد آصف یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ پرویز مشرف کے خلاف حکومت مدعی ہے ،اس طرح انہوں نے یہ گیم ایک مرتبہ پھر حکومت کے ہاتھ میں دینے کی کوشش کی ہے جس کا وہ خود بھی حصہ ہیں۔

(جاری ہے)

پرویز مشرف کی اہلیہ صہبامشرف نے بھی میڈیا اطلاعات کے مطابق اپنے شوہر کا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لئے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا ہے اور اگرچہ تازہ اطلاعات کے مطابق وزارت داخلہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ وہ درخواست ہے جو محض ایک مرتبہ انکار سے غیر موثر نہیں ہو سکتی اور اگر کسی بھی وقت ضرورت اور حالات کا تقاضا ہو تو اس درخواست پر عمل کرتے ہوئے مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا جا سکتا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اور خود پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی مشرف کے خلاف بھر پور کارروائی پر متفق نظر نہیں آتے اور ان میں سے کئی رہنما یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ میاں نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر تصادم کا راستہ اختیار کر لیا ہے جبکہ خاموش اکثریت کا خیال ہے کہ اس حد تک آگے نہیں جانا چاہیے بلکہ کوئی بھی مناسب موقع دیکھتے ہوئے یہ ”کانٹا“ نکال کر بیرون ملک بھیج دینا چاہیے تا کہ ملک میں اداروں کے درمیان کسی قسم کے تصادم یا ٹکراؤکی صورت حال پیدا نہ ہو۔

مبصرین اس معاملے پر پاک فوج اور تحریک انصاف سربراہ عمران خان کی خاموشی کو بھی خصوصی اہمیت دے رہے ہیں اگرچہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے خود کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے مشرف کے اس بیان کو مسترد کیا ہے کہ انہیں فوج کی پشت پناہی حاصل ہے یا فوج میں ان کے خلاف کارروائی پر بے چینی پائی جاتی ہے تاہم اس کے باوجود اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اور دیگر اہم سیاست دان یہ مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ فوج کو اس معاملے پر وضاحت دینی چاہیے اور اگر وہ خاموش رہتی ہے تو اسے نیم رضا مندی سمجھا جا سکتا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی وزیر خارجہ سمیت کوئی بھی تیسری قوت یا خود فوج حکومت اور مشرف کے درمیان اس ٹکراؤ کی صورت حال میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔اگر حکومت اور مشرف کے درمیان یہ صورت حال طول پکڑتی ہے تو اس صورت میں ملک میں پائی جانے والی بے چینی اور عدم استحکام کی صورت حال مزید گھمبیر ہو سکتی ہے ۔