سینٹ قائمہ کمیٹی خزانہ کا پی آئی اے کی نجکاری بارے تشویش کا اظہار،وزارت سے وضاحت طلب ، حکومت منافع بخش اداروں کی نجکاری کیوں کرنا چاہتی ہے ؟کمیٹی کا استفسار ، آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی شرائط حکومت کیلئے پابندی نہیں ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے ،سیکرٹری خزانہ وقار مسعود کی بریفنگ ، حکومت کے زیر انتظام چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری حکومت کو درپیش مالی وسائل کی کمی سے نمٹنے کیلئے ہے ، زبیر عمر

جمعہ 3 جنوری 2014 07:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار آن لائن۔3جنوری۔2014ء)سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے حکومت کی جانب سے پی آئی اے کو اعتماد میں لئے بغیر آئی ایم ایف کے ساتھ پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں شرائط ماننے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور وزارت سے وضاحت طلب کرلی ہے اس کے علاوہ کمیٹی نے یہ بھی استفسار کیا ہے کہ حکومت منافع بخش اداروں کی نجکاری کیوں کرنا چاہتی ہے؟ تاہم کمیٹی کو بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی شرائط حکومت کیلئے پابندی نہیں ہیں بلکہ ان میں تبدیلی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ حکومت کی جانب سے قرضے کے حصول کیلئے آئی ایم ایف کو اپنے مالی پروگرام سے متعلقہ ہیں ۔

جمعرات کے روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو کا اجلاس چیئرپرسن نسرین جلیل کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس میں پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والی شرائط کے حوالے سے کمیٹی کو بریفنگ دی گئی تاہم کمیٹی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ وزارت خزانہ نے آئی ایم ایف کے ساتھ پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں شرائط پر متفق ہونے اور دستخط کرنے سے پہلے پی آئی اے کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا ۔

(جاری ہے)

مزید برآں حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے روڈ میپ کو پی آئی اے کے بورڈ سے کیوں نہیں مشاورت کی ۔ کمیٹی نے مزید زور دیا کہ پی آئی اے کی نجکاری میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے ۔ کمیٹی نے نجکاری کمیشن سے بورڈکے ممبر کی تفصیلات بھی طلب کرلی ہیں اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات سے پہلے پی آئی اے کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا تاہم سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری حکومت کی جانب سے مجوزہ سرکاری اداروں کی سرفہرست نہیں ہے بلکہ حکومت نے اس حوالے سے ایک مالی مشیر مقرر کرنے پر اتفاق کیا ہے جسے مارچ تک مقرر کردیا جائے گا اور وہی مشیر اس حوالے سے پروگرام دے گا جس کے بعد حکومت فیصلہ کرے گی کہ پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کو کیسے آگے بڑھانا ہے ۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں حزب اختلاف کے ارکان کی پی آئی اے کی نجکاری کے معاملے پر حکومت پر شدید تنقید ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت ایک مخصوص گروپ کے فائدے کیلئے پی آئی اے کی نجکاری کرنا چاہتی ہے تاہم پیپلز پارٹی اس نجکاری کی بھرپور مخالفت کرے گی اور نجکاری کو نہیں ہونے دیا گا ۔ کمیٹی کا اجلاس پی آئی اے کی نجکاری اور اس معاملے پر حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ شرائط پر بریفنگ کیلئے بلایا گیا تھا اجلاس میں چیئرمین نجکاری کمیشن زبیر عمر ، سیکرٹری نجکاری کمیشن امجد علی خان ، سیکرٹری خزانہ وقار مسعود اور دیگر متعلقہ حکام شریک تھے تاہم ارکان کمیٹی ان کو سننے کی بجائے اپنا پوائنٹ آف ویو بتاتے رہے اور سیکرٹری خزانہ سمیت کسی بھی افسر کو بھرپور جواب دینے کا موقع نہیں دیا گیا جبکہ سینیٹر اپنے ہی سوالوں کے جوابات دینے کی کوشش کرتے رہے ۔

ایک موقع پروقار مسعود اور سینیٹر اسلام الدین شیخ کے درمیان دلچسپ مقالمہ بازی بھی ہوئی ۔ اسلام الدین شیخ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت پی آئی اے کی نجکاری نہیں ہونے دے گی اور وزارت خزانہ پی آئی اے کی نجکاری کیوں کرنا چاہتی ہے تاہم وقار مسعود کا کہنا تھا پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے ہی پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا مزید برآں پی آئی اے کا بورڈ بھی پی آئی اے کی نجکاری کی سفارش کرچکا ہے اور اس حوالے سے وہ دستاویزات کمیٹی کو پیش کرسکتا ہے ۔

ایک موقع پر چیئرپرسن نسرین جلیل بھی بے بس نظر آئیں کیونکہ اسلام الدین شیخ ، حاجی عدیل اور فتح محمد حسنی وزارتوں کے نمائندوں کو ان کے بیانات مکمل ہونے سے قبل ہی ٹوک کر اپنی بات شروع کردیتے تھے ۔چیئرمین نجکاری بورڈ زبیر عمر نے کہا ہے کہ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری حکومت کو درپیش مالی وسائل کی کمی سے نمٹنے کیلئے ہے ، دنیا میں کہیں بھی حکومتیں کاروبار نہیں کرتی لیکن پاکستان میں حکومتیں بہت سے سر کاری ادارے چلا رہی ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو اربوں روپے ان اداروں کو چلانے کیلئے دینے پڑتے ہیں ۔

پاکستان سٹیل مل 2008اور پی آئی اے 1999ء تک منافع بخش ادارے تھے لیکن گزشتہ حکومتوں نے اپنی غلط مالی پالیسیوں اور سیاسی بنیاد پر بھرتیوں کی وجہ سے ان اداروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ جمعرات کے روز سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے زبیر عمر کا کہنا تھا کہ کاروباری معاملات میں ملوث نہیں ہوتیں لیکن پاکستان میں حکومت کئی ادارے چلا رہی ہے جس کی وجہ سے سالانہ اربوں روپے کے نقصانات اٹھا رہی ہے ۔

موجودہ حکومت نے ان اداروں کی نجکاری کا عمل مالی وسائل کی کمی کو پورا کرنے کیلئے شروع کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سٹیل ملز 2008ء تک اور پی آئی اے 1999ء تک منافع بخش ادارے تھے لیکن بعد کی حکومتوں نے اپنی غلط پالیسیوں اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی کے ذریعے ان اداروں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے مرحلے میں اکتیس اداروں کی نجکاری کا پروگرام بنایا ہے تاہم پہلی ترجیح ان اداروں کو منافع بخش بنانا ہے ان اداروں کی نجکاری کے دوران ملازمین کے مفادات کے تحفظ کو ترجیح دی جائے گی اور کوشش کی جائے گی کہ لوگ بے روزگار نہ ہوں ۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پچیس برس سے جاری نجکاری کے عمل کے بہت دور درس نتائج برآمد ہوئے ہیں اور آج این سی بی سالانہ تیس ارب روپے حکومت کو ٹیکس ادا کررہا ہے جبکہ یہی ادارے نجکاری سے قبل حکومت سے مالی امداد مانگا کرتے تھے ۔