سعودی عرب:خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی ہٹتے ہی سوشل میڈیا پر افواہیں جنم لینے لگیں

گاڑی کو پیش آنے والے حادثے پر قدامت پرستوں کی جانب سے خاتون ڈرائیور کو ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا

Muhammad Irfan محمد عرفان پیر 25 جون 2018 16:04

سعودی عرب:خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی ہٹتے ہی سوشل میڈیا پر افواہیں ..
ریاض( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔25جُون 2018ء) سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی ہٹنے کے فیصلے کو نہ صرف مملکت کے اندر بلکہ دُنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے۔ مگر سعودی عرب میں ایسے قدامت پرستوں کی بھی کمی نہیں جو خواتین کی ڈرائیونگ پر بھنویں اُچکا رہے ہیں۔ یہ لوگ سعودی عرب کے موجودہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کی جانب سے مُلک کو اعتدال کی جانب گامزن کرنے کی پالیسیوں کو بھی وقتاً فوقتاً نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

قدامت پسندوں کا خیال ہے کہ اعتدال پسندی کی روش اپنانے سے اسلامی دُنیا میں سعودی عرب کی حُرمت و تکریم میں کمی واقع ہو جائے گی۔ جبکہ گزشتہ سال خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی ہٹانے کے شاہی فرمان کو بھی تنقید کے تیروں کی بوچھاڑ کا سامنا ہے۔

(جاری ہے)

سوشل میڈیا پر خواتین کی ڈرائیونگ پر طنز و مزاح سے بھرپور چُٹکلے بھی دیکھنے کو مِل رہے ہیں۔ گزشتہ ایک دو روز سے سوشل میڈیا پر تبوک میں گاڑی کو پیش آنے والے حادثے کی ویڈیوپوسٹ ہوتے ہی وائرل ہو گئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی سڑک کے کنارے بنے لوہے کے بیریئرز پر چڑھ گئی ہے۔

ویڈیو پوسٹ کرنے والے نے کمنٹ کیا تھا کہ یہ گاڑی پابندی ہٹنے کے بعد ایک خاتون چلا رہی تھی جس کے باعث ایسا مضحکہ خیز حادثہ رُونما ہوا۔ جس پر سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے سعودی خواتین کی ڈرائیونگ پر طنز بھرے کلمات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جبکہ کئی خواتین ڈرائیورز کی حمایت میں بھی اپنے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ لیکن اس ویڈیو کے حوالے سے کیا جانے والا دعویٰ سراسر جھُوٹا ثابت ہوا ہے۔

تبوک کے ریڈ کریسنٹ ادارے کے ترجمان نے وضاحت جاری کی ہے کہ مذکورہ حادثے کا شکار ہونے والی گاڑی ایک تیس سالہ مرد چلا رہا تھا جسے زخمی حالت میں شاہ خالد ہسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں اس کی حالت اب تسلّی بخش بتائی جا رہی ہے۔جبکہ پولیس نے بھی اس افواہ کی تردید کی ہے۔ اس وضاحت کے بعد سوشل میڈیا پر خواتین کی ڈرائیونگ کے مخالف افراد کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور مذکورہ ویڈیو کی بناء پر خواتین کو تضحیک آمیز جملوں کا نشانہ بنانے والوں کو تنگ ذہن اور صنفِ نازک سے خوفزدہ لوگ قرار دیا جا رہا ہے۔

عورتوں کی ڈرائیونگ کے حمایتی افراد کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب ہزاروں کی تعداد میں خواتین ڈرائیونگ لائسنس کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کروا رہی ہیں‘ اور صرف تبوک کے علاقے سے خواتین کو سو کے قریب لائسنس جاری کیے گئے ہیں‘ سوشل میڈیا پر اس طرح کی مذموم حرکات اُن کا مورال گرانے کی بھونڈی حرکت ہے۔