میری خوشی کی انتہا اس وقت نہ رہی جب نیمار میرے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا ،ْ احمد رضا

جب گراؤنڈ میں داخل ہواتو اس کے بارے میں پہلے کبھی سوچا بھی نہیں تھا ،ْ پاکستانی کھلاڑی میرے دادا ابو بھی فٹ بال سیتے تھے اور میرا دادی امی بھی سیتی تھیں ،ْابھی تو ٹاس کے وقت پاکستان کی نمائندگی کی ہے ،ْ اگر موقع ملا تو پاکستان کی فٹ بال ٹیم میں نمائندگی بھی کروں گا ،ْ انٹرویو بہت خوش قسمت ہیں کہ بیٹے کی بدولت اتنی عزت ملی ہے ،ْ والد شبیر احمد کی بات چیت

ہفتہ 23 جون 2018 20:01

میری خوشی کی انتہا اس وقت نہ رہی جب نیمار میرے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا ..
ماسکو (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جون2018ء) روس میں جاری فیفا ورلڈ کپ میں برازیل اور کوسٹا ریکا کے میچ کے کوائن ٹاس کے وقت موجود پاکستان کے شہر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے احمد رضا نے کہا ہے کہ میری خوشی کی انتہا اس وقت نہ رہی جب نیمار میرے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا ۔احمد رضا نے بی بی سی کے ساتھ خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیالکوٹ کے قائد اعظم پبلک سکول میں زیر تعلیم ہیں اور ان کو فٹ بال کا بہت شوق ہے۔

انہوںنے بتایا کہ ایک دن کوکا کولا والے سکول آئے اور انھوں نے فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا اور 1500 پچوں میں سے مجھے منتخب کر کے لاہور لے گئے۔‘لاہور میں پاکستان فیفا والے آئے اور انھوں نے مجھے دیکھا اور بعد میں بتایا گیا کہ وہ مجھے روس میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ میں لے کر جائیں گے۔

(جاری ہے)

مجھے آہستہ آہستہ بتایا گیا کہ روس کب جانا ہے وہاں کیا کرنا ہے اور کہاں ٹھہرنا ہے۔

پھر انھوں نے بتایا کہ کس میچ میں ٹاس کے وقت میں گراؤنڈ میں موجود ہوں گا تو پھر مجھے یقین ہو گیا کہ میں فیفا ورلڈ کپ کیلئے جا رہا ہوں۔سینٹ پیٹرزبرگ گراؤنڈ میں برازیل بمقابلہ کوسٹا ریکا کے میچ کے لیے گراؤنڈ میں داخل ہونے کے احساسات کے حوالے سے 15 سالہ احمد رضا نے کہا کہ وہ جب گراؤنڈ میں داخل ہوئے تو اس کے بارے میں انھوں نے پہلے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

انہوںنے کہاکہ میں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا کہ میں فیفا کا میچ دیکھنے جاؤں گا اور وہ بھی اس ٹیم کا جو میری پسندیدہ ٹیم ہے جس میں میرا پسندیدہ کھلاڑی نیمار کھیلتا ہے۔ لیکن میری خوشی کی انتہا اس وقت نہ رہی جب نیمار میرے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا۔انھوں نے بتایا کہ میں جب سٹیڈیم میں داخل ہوا تو ایک اور پاکستانی بھی وہاں تھا جس نے کہا ہیلو تم کہاں آ گئے ہو سیالکوٹ میں تو فٹ بال کھیلا ہی نہیں جاتا۔

اس کے جواب میں میں نے کہا ’کھیلا بھی بہت جاتا ہے اور بنتا بھی بہت ہے۔ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں او کے۔احمد رضا کا کہنا تھا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ انھوں نے فیفا میں پاکستان کی نمائندگی کی ،ْابھی تو میں نے ٹاس کے وقت پاکستان کی نمائندگی کی ہے اور اگر موقع ملا تو پاکستان کی فٹ بال ٹیم میں نمائندگی بھی کروں گا۔اپنے خاندان کی بات کرتے ہوئے احمد رضا نے کہا کہ میرے دادا ابو بھی فٹ بال سیتے تھے اور میرا دادی امی بھی سیتی تھیں۔

انھوں نے بتایا کہ ان کے والد شبیر احمد زیادہ پڑھے نہیں تو انھوں نے بھی دادا ابو کے ساتھ فٹ بال سینے شروع کر دئیے۔شادی کے بعد میری امی نے بھی فٹ بال سینے شروع کر دئیے لیکن پھر اخراجات بڑھ گئے اور آمدنی کم تھی تو میرے والد نے مزدوری شروع کر دی اور رات کو جب وقت ملتا تھا تو وہ فٹ بال بھی سیتے تھے۔انھوں نے کہا کہ جب سے میں روس آیا ہوں تب سے ان کی والدہ روز فون کر کے دعائیں دیتی ہیں اور خوش ہوتی ہیں۔

میں جب لاہور سے آیا تو میرے پاس فیفا کا روس میں فیفا ورلڈ کپ میں آنے کا دعوت نامہ تھا ،ْمیں نے اپنے دوستوں کو سکول میں بتایا کہ میں روس جا رہا ہوں تو میرے دوست میرا یقین نہیں کر رہے تھے اور مجھے کہتے تھے کہ یار ایسے نہ کیا کر جھوٹ کم بولا کر۔احمد نے بتایا کہ جب روس جانے کا وقت قریب آیا تو وہ سکول نہیں گئے تو ان کے دوستوں کو یقین آیا تو انھوں نے کہا کہ سوری یار ہمیں نہیں معلوم تھا ،ْہمارے لیے نیمار کی شرٹ لے آنا اور رونالڈو سے سائن کرا لینا۔

احمد رضا نے کہا کہ فیفا انتظامیہ کا اصول ہے کہ کسی کھلاڑی سے بات نہیں کرنی اور اگر کھلاڑی بات کر لے تو صحیح ہے۔اپنے پسندیدہ کھلاڑی نیمار کے ساتھ ملاقات کے بارے میں انھوں نے کہا کہ میں جب ٹاس کے لیے کھڑا تھا تو میں سب سے آخر میں تھا تو نیمار میرے ساتھ آ کر کھڑے ہو گئے۔ میں نے ہمت کی اور ان سے ہاتھ ملا لیا۔انھوں نے کہا کہ وہ جب بھی آگے ہوتے کہ نیمار کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں تو کوئی ان کو پیچھے کر دیتا۔

میں ایک بار کوشش کر کے آگے ہوا اور ایک شخص سے کہا میری تصویر نیمار کے ساتھ کھینچو لیکن تصویر کھینچے والا کون تھا اور وہ کہاں گیا مجھے نہیں معلوم۔احمد رضا کے والد شبیر احمد کا کہنا ہے کہ وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ بیٹے کی بدولت ان کو اتنی عزت ملی ہے۔انھوں نے بتایا کہ قائد اعظم پبلک سکول میں ہی ایک دوست ہے جو احمد رضا کو لے جاتا تھا فٹ بال کھیلنے۔ ’ایک دن میں نے احمد سے پوچھا کہ رات کے وقت کہاں نکل جاتے ہو تو اس نے مجھے بتایا کہ میں فٹ بال کھیلنے جاتا ہوں۔میں نے بھی کہا کہ ہاں بیٹا کھیلو میں فٹ بال سیتا ہوں اور تم کھیلتے ہو۔