30 سال کراچی پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والی ایم کیو ایم کو اپ سیٹ شکست کے آثار نظر آنے لگے

قومی اسمبلی کی صرف 7 نشستوں پر امیدوار نامزد کئے ، صوبائی اسمبلی کی ہر نشست پر ایم کیو ایم کا امیدوارموجود ، خود ایم کیو ایم کے امیدواروں کو بھی اپنی جیت کا یقین نہیں

ہفتہ 23 جون 2018 18:51

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 جون2018ء) عام انتخابات برائے 2018 میں 30 سال کراچی پر بلاشرکت غیرے حکمرانی کرنے والی ایم کیو ایم کو اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اندرونی تنظیمی اختلافات کے باعث پارٹی الیکشن کے لئے پوری طرح تیار نہیں ہوسکی۔جبکہ ایم کیو ایم نے کراچی سے قومی اسمبلی کی صرف 7 نشستوں پر امیدوار نامزد کئے ہیں۔

گوکہ صوبائی اسمبلی کی ہر نشست پر ایم کیو ایم کا امیدوارموجود ہے تاہم خود ایم کیو ایم کے امیدواروں کو بھی اپنی جیت کا یقین نہیں ہے۔تفصیلات کے مطابق کراچی کی حکمران جماعت رہنے والی متحدہ قومی موومنٹ شدید مشکلات کا شکار ہے عام انتخابات میں شکست کے خوف نے پی آئی بی گروپ اور بہادرآباد گروپ کو متحد تو کردیاہے تاہم الیکشن کے حوالے سے ایم کیو ایم کے خدشات ابھی دور نہیں ہوئے اور نہ ہی ان کی مشکلات میں کمی آئی ہے۔

(جاری ہے)

ایم کیوایم پاکستان کو اس وقت ان گنت چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان چیلنجز میں اندرونی اختلافات، تنظیمی نیٹ ورک کاغیر فعال ہونا سرفہرست ہے ، جبکہ پرانے اور اہم رہنماؤں و کارکنان کی جانب سے مختلف جماعتوں میں شمولیت بھی متحدہ قومی موومنٹ کے لئے کسی درد سر سے کم۔نہیں، جبکہ دیگر مشکلات میں فنڈزکی قلت، اسیر و لاپتہ کارکنان کے مسائل بھی ایم کیو ایم کو پریشان کئے ہوئے ہیں۔

شہر میں بلدیاتی مینڈیٹ ہونے کے باوجود مسائل کے حل نہ ہونے پر ایم کیو ایم کو عوامی تنقید کا سامنابھی ہے جبکہ بانی ایم کیو ایم کی جانب سے الیکشن کے بائیکاٹ کے اعلان اور عوام میں بائیکاٹ کے حوالے سے مہم چلانے پر بھی ایم کیو ایم کو پریشانی لاحق ہے۔تاہم ان تمام تر پریشانیوں اور مسائل کے باوجود ایم کیو ایم الیکشن میں حصہ کے رہی ہے اور ایم کیو ایم رہنماکلین سویپ کے دعوے بھی کررہے ہیں تاہم خود انہیں بھی اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہے اسی لئے متحدہ رہنماؤں کی جانب سے بارہاں حلقہ بندیوں اور مردم شماری کے نتائج پر اعتراضات اٹھائے جاچکے ہیں۔

یوں تو ایم کیو ایم نے گزشتہ بلدیہ الیکشن میں میئر تو اپنا ہونا چاہیے کہ سلوگن کے تحت کامیابی حاصل کی تھی اس بار بھی ایم کیو ایم نے مہاجر کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا ہے "اپنوں کا ووٹ اپنوں کیلئے "کے سلوگن کے تحت الیکشن لڑنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ایم کیو ایم کا نئے صوبے کا نعرہ عوامی پزیرائی حاصل نہیں کرسکا تھا اس لئے فی الحال نئے صوبے کے نعرے کو متحدہ قومی موومنٹ اپنی انتخابی مہم میں شامل نہیں کرے گی۔

ایم کیو ایم بانی ایم کیو ایم سے علیحدگی کے بعد پہلی بار الیکشن لڑرہی ہے۔اس لئے ووٹرز ٹرن آؤٹ میں بھی واضح فرق پڑے گا جبکہ نئی حلقہ بندیاں بھی ایم کیو ایم کے ووٹ بینک پر اثر انداز ہوں گی۔نئی حلقہ بندیوں کے بعد کراچی میں قومی اسمبلی کی نشستیں20 سے بڑھ کر21 اور سندھ اسمبلی کی نشستیں 42 سے بڑھ کر 44ہوگئی ہیں۔۔ایم کیوایم پاکستان کو اس الیکشن میں پاک سرزمین پارٹی، پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، ن لیگ، متحدہ مجلس عمل سمیت مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں کا سامنا ہے۔

ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی الیکشن کے روز پولنگ اسٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی کے سبب کسی بھی جماعت کے دھاندلی کرنا تقریباً ناممکن ہے۔سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے الیکشن نتائج اس مرتبہ حیران کن ہوں گے اور کوئی جماعت واضح برتری حاصل نہیں کرسکے گی۔کراچی کاعوامی مینڈیٹ اس الیکشن میں یکرطرفہ نہیں بلکہ تقسیم ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔سیاسی۔پنڈتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر ایم کیو۔ایم کے اندرونی معاملات جوں کے توں رہے تو ایم کیو ایم کو الیکشن میں اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑسکتا ہی