جدہ:خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کے دوران بھی مملکت میں موجود خواتین ڈرائیورز منظر عام پر آ گئیں

ڈاکٹر اعلیٰ ابو الفرج ‘ سارا العُریفی‘ جیہن سعید العباسی پابندی کے دوران بھی ڈرائیونگ سے لطف اندوز ہو رہی ہیں

Muhammad Irfan محمد عرفان ہفتہ 23 جون 2018 13:47

جدہ:خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کے دوران بھی مملکت میں موجود خواتین ..
جدہ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔23جُون 2018ء) اس وقت سعودی خواتین آئندہ اتوار کے روز سے پابندی اُٹھنے کے لمحے کی شدت سے منتظر ہیں‘ مگر انہیں یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ سعودی مملکت میں اس پابندی کے دور میں بھی کچھ ایسی خواتین ہیں جو پہلے ہی مملکت کی سڑکوں پر ڈرائیونگ کر رہی ہیں۔ کنگ عبداللہ یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (KAUST) اور Saudi Aramco میں خواتین کو پہلے ہی خصوصی ڈرائیونگ پرمٹس جاری کیے جا چکے ہیں۔

KAUST میں بائیو سائنس ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر تعینات 37 سالہ ڈاکٹر اعلیٰ ابو الفرج بھی انہی معدوے چند خواتین میں سے ہیں جنہیں سعودی سرزمین پر ڈرائیونگ کا تجربہ باقی خواتین کے مقابلے میں پہلے ہی ہو گیا ہے۔ ابوالفرج کا کہنا ہے کہ KAUST میں ڈرائیونگ کا ماحول یورپی ممالک یا امریکا کی طرح کا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں ٹریفک ضابطے بہت سخت ہیں اور پوائنٹ بیسڈ سسٹم نافذ ہے۔

ہر ایک کو یونیورسٹی میں ان ضابطوں کی کوئی پابندی کرنی پڑتی ہے کیونکہ یہاں کی سڑکوں پر بہت سارے لوگ سائیکل چلا رہے ہوتے ہیں‘ پیدل چلتے ہیں ‘ گالف کارٹ ڈرائیور کرتے ہیں جبکہ سائیکل پر سوار سکول جاتے بچوں کی وجہ سے تو بہت زیادہ احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ابو الفرج مزید کہتی ہیں’’ یہاں پر نافذ پوائنٹ سسٹم کے باعث دوران ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال پر تین پوائنٹ کا جرمانہ ہوتا ہے‘ سٹاپ پوائنٹ پر نہ رُکنے کی صورت میں آٹھ پوائنٹ کا جرمانہ ہوتا ہے۔

اگر آپ کی ٹریفک ضابطوں کی خلاف ورزی 19 پوائنٹس تک پہنچ جاتی ہے تو پھر آپ کا ڈرائیونگ لائسنس تین ماہ کے لیے ضبط کر لیا جاتا ہے‘ یہاں تک کہ آپ کو اس ممنوعہ عرصہ کے دوران سائیکل تک چلانے کی اجازت نہیں ہوتی۔یونیورسٹی میں ڈرائیونگ لائسنس دیتے وقت ایک ٹریفک پولیس افسر اور ایک افسر سیفٹی ڈیپارٹمنٹ سے موجود ہوتا ہے۔ٹیسٹ کے دوران اگر آپ نے صحیح موڑ مُڑا ہے‘ مگر وہ محفوظ نہیں ہے‘ تب بھی آپ کو ٹریفک پولیس افسر لائسنس جاری نہیں کرے گا۔

اس یونیورسٹی میں خواتین اور مرد برابر ہیں‘ یہاں تک کہ ڈرائیونگ کے معاملے میں بھی۔میں سعودی خواتین کو یہی صلاح دوں گا کہ وہ اس موقعے کو خوش نصیبی جان کر محفوظ ڈرائیونگ کریں۔ کیونکہ آپ کی زندگی آپ کی محتاط ڈرائیونگ میں ہے۔‘‘مصر سے تعلق رکھنے والی50 سالہ CAD انجینئرجیہن سعید العباسی بھی KAUST میں ڈرائیونگ کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے احاطے میں ڈرائیونگ پُرسکون اور محفوظ ہے کیونکہ چاہے یہاں پر ٹریفک ہو یا نہ ہو‘ بھیڑ کے اوقات ہوں یا خالی روڈز‘ رفتار کی حد 60 کلومیٹر فی گھنٹہ مقرر کی گئی ہے۔

جیہن کا مزید کہنا ہے کہ ’’KAUST میں تمام لوگ اپنے حقوق سے آگاہ ہیں۔ انہیں ڈرائیونگ ضابطوں کا بھی شعور ہے۔ ہر چیز یہاں بہت منظم ہے۔یہاں جگہ جگہ سیکیورٹی کارز‘ سیکیورٹی کیمرے‘ کراس واک اور سٹاپ سائن نصب ہیں۔ خواتین کی ڈرائیونگ پر سے پابندی ہٹانا بہت اچھا فیصلہ ہے۔ خواتین کو حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ خود کو خود مختار اور مضبوط بنا سکیں۔

خواتین ڈرائیورز کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ میں خواتین سے یہی کہوں گا کہ وہ ڈرائیونگ کے دوران سڑکوں پر کسی قسم کی بھیڑ یا مصیبت سے حواس باختہ نہ ہوں اور پُراعتماد رہیں۔‘‘ دہران میں واقع Aramco کے شعبہ تعلقات عامہ میں تعینات 28 سالہ سعودی سارا العُریفی بھی ان خوش نصیب خواتین میں شامل ہیں جو پابندی ہٹنے سے پہلے ہی سعودی مملکت میں گاڑی ڈرائیور کر رہی ہے۔

وہ Aramcoکے ڈرائیونگ کے لیے محفوظ ترین ماحول کو بہت سراہتی ہے۔ ’’یہاں ڈرائیونگ بہت پُرسکون اور آرام دہ ہے۔ کسی قسم کا ٹریفک کا شور نہیں‘ دھیمی رفتار میں گاڑیاں چلتی ہیں‘ ڈرائیورز بھی تہذیب کے دائرے میں رہ کر ڈرائیو کرتے ہیں۔ کسی قسم کی ٹریفک ضابطے کی خلاف ورزی کا اثر ملازم کی سالانہ ترقی اور کیریئر پر اثر انداز ہوتا ہے۔ سعودی خواتین کو پہلے دن سے بہت محتاط انداز سے ڈرائیونگ کرنا ہو گی۔ کیونکہ یہاں بہت سے ایسے سرپھرے ڈرائیورز ہیں جو ٹریفک ضابطوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور وہ خواتین کی ڈرائیونگ کو ذہنی طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘