پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسز سے متعلق کیس

اداروں کی رپورٹس میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے،چیف جسٹس

جمعہ 22 جون 2018 19:20

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسز سے متعلق کیس
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 جون2018ء) پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسز سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر اداروں کی رپورٹس میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے اور ٹیکسز سے متعلق سماعت کی تو اس موقع پر ایم ڈی پی ایس او پیش ہوئے تاہم چیئرمین اوگرا کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔

سماعت کے دوران ایم ڈی پی ایس او نے عدالت کو بتایا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت کے تناسب سے اوسط قیمت مقرر کی جاتی ہے اور پیٹرولیم مصنوعات پی ایس او سمیت 22 کمپنیاں خرید رہی ہیں۔ایم ڈی پی ایس او کے مطابق مشترکہ اجلاس میں ہر کمپنی 3 ماہ کی ڈیمانڈ رکھتی ہے۔

(جاری ہے)

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی رپورٹ سے مطمئن نہیں، آپ کے ریکارڈ کی ماہرین سے تصدیق کرائیں گے اور اگر رپورٹس میں جھول ہوا تو کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ لوگ بلک گئے ہر ماہ قیمتیں اوپر نیچے کر دیتے ہیں، لگتا ہے سیاسی وڈیروں نے پمپس کھول لیے ہیں۔ڈیلرز کے کمیشن کے تناسب میں فرق پر چیف جسٹس پاکستان نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ لگتا ہے یہ سب ڈیلرز اور اداروں کی اجارہ داری ہے، بتائیں کراچی والوں پر ٹرانسپورٹیشن چارجز کیوں لاگو کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کراچی والوں سے ٹرانسپورٹیشن چارجز کیوں لے رہے ہیں، یہ پالیسیاں کون بنا رہا ہے جس پر ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ پالیسیاں اوگرا بناتا ہے۔

اس موقع پر عدالت میں موجود اوگرا حکام نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ اوگرا پالیسیاں بناتا ہے، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے طریقہ کار سے متعلق تمام پالیسیاں حکومت بناتی ہے۔ذمے داریاں ایک دوسرے پر ڈالنے پر چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ ایک دوسرے پر ذمے داری ڈال رہا ہے۔

چیف جسٹس نے اوگرا، پی ایس او ودیگر حکام کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور ٹیکسسز کے طریقہ کار کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ بتایا جائے ان اداروں کے سربراہوں کی قابلیت کیا ہے غریبوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے ، دفاتر میں بیٹھ کر بونگیاں مت ماریں، حکمت عملی بنائی جائے۔

جسٹس ثاقب نثار نے پی ایس او، اوگرا، ایف بی آر اور وفاقی حکومت سے 10 روز میں جواب طلب کرلیابتایا جائے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔سیکریٹری فنانس نے عدالت کو بتایا کہ سابق حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں نہیں بڑھائیں، سابق حکومت کے فیصلے کا بوجھ عبوری حکومت پر آیا، خسارہ کم کرنے کیلئے مزید قیمت بڑھائی جاسکتی ہے۔

جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس کا مطلب ہے شہریوں پر مزید عذاب ڈالیں گے،جس کا دل چاہتا ہے ٹیکس عائد کر دیتا ہے ، عدالت ٹیکسز اور قیمتوں کے طریقہ کار سے مطمئن نہیں۔ سیکرٹری فنانس نے کہا پٹرولیم قیمتیں اب بھی خطے میں سب سے کم ہیں،جس پر چیف جسٹس نے کہا کئی بار سن چکا ہوں قیمتیں بھارت سے کم ہیں، بھارت میں ڈالرز کی قیمت بھی تو دیکھیں ، بھارت اچھا کر رہا ہے یا برا، آپ کیا کر رہے ہیں ، لوگوں پر ترس کھانا سیکھیں۔عدالت نے تمام متعلقہ اداروں سے جامع جواب طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 5 جولائی تک ملتوی کردی۔