سپریم کورٹ نے ممبران کشمیر کونسل کی جانب یس دائر آئینی پٹیشن ابتدائی مرحلہ پر ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی

جمعرات 21 جون 2018 20:00

مظفرآباد/اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 21 جون2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں3رکنی بینچ نے ممبران کشمیر کونسل محمد صدیق بٹلی ، محمد یونس میر ، پرویز اختر اعوان ، اور مختیار عباسی کی جانب سے دائر کردہ آئینی پٹیشن ابتدائی مرحلہ پر ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی ۔بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس اعجاز الحسن ، جسٹس عمرعطابندیال شامل تھے ۔

تفصیلات کے مطابق کشمیر کونسل کے چار ممبران نے سپریم کورٹ آف پاکستان میںآئین پاکستان کی سیکشن184/3 کے تحت ایک آئینی درخواست سپریم کورٹ کے رجسٹری برانچ لاہور میں دائر کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ آزاد جموں وکشمیر اسمبلی و جموں وکشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس میں جو 13ویں آئینی ترامیم منظور کی گئی اسے کالعدم قرار دیا جائے کیونکہ اس ترمیم کے تحت جو آزاد کشمیر اسمبلی کواختیارات دے گئے ہیں وہ کسی بھی صوبائی اسمبلی کو حاصل نہیں ہیں ٹیکس وصولی کا مکمل اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ شیڈل بی میں درج جن امور پر آزاد کشمیر اسمبلی کو قانون سازی کی اجازت دی گئی وہ کسی صوبے کو حاصل نہیں ۔

(جاری ہے)

ٹیکس وصولی کے اختیارات بھی آزاد کشمیر حکومت کے دے دیے گئے جبکہ یہ بھی کسی صوبائی حکومت کے پاس نہیں کشمیر کونسل میں کشمیر ی قیادت کی تعداد بڑھانے سے اس بات بھی احتمال ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کشمیر ی قیادت کے اثر ورسوخ سے نکل کر کوئی آزادانہ فیصلے نہیں کر سکیں گے ۔اور اسی طرح وفاقی کابینہ نے 13ویں ترمیم کی جو منظوری مورخہ 31مئی 2018کو دی اسے بھی کالعدم قرار دیا جائے جس پر عدالت نے فیصلہ دیا کہ یہ معاملات اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آرٹیکل 184/3کے تحت ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے درخواست خارج کر دی گئی یاد رہے کہ قبل ازیں بھی ان ہی ممبران نے مبینہ طور پر کشمیر کونسل کے ملازمین کی ایماء پر آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں ترمیم کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس کو فاضل عدالت نے سماعت کے بعد مسترد کر تے ہوئے وفاقی کابینہ کو آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں ترمیم کا عمل جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی ۔

ممبران کونسل کی جانب سے آئینی ترامیم کے حوالے سے آزاد حکومت اور قانون ساز اسمبلی کے اختیارات کے ضمن میں متعدد نکات اٹھائے گئے ہیں ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کشمیرکونسل کی سطح سے حکومت آزاد کشمیر کو جو محکمہ جات /ملازمین اور اثاثہ جات تیرویں آئینی ترمیم کے ذریعے منتقل ہوئے ہیں کو روکنے کے لیے متذکرہ آئینی پٹیشن دائر کی گئی اور اس کے پس پردہ وہ اشخاص ہیں جو روز اول سے کشمیر کونسل کے بے لگام گھوڑے کو زندہ رکھنے کے درپے ہیں۔

تاہم فاضل سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان ممبران کے موقف کو ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے تاریخی فیصلہ صادر کیا ہے جس پر آزاد کشمیر کی عوام نے انتہائی خوشی اورمسرت کا اظہار کیا ہے ۔ درخواست میں یہ بھی موقف اپنایاگیا تھا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے اختیارات آزاد کشمیر میں پاکستانی شہریوں کے بنیاد ی تحفظ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ کونسل کے ملازمین کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو آزاد کشمیر کے سٹیٹ سبجیکٹ کے ہولڈر نہیں اس لیے ان کے مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ درخواست میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا تھا کہ یہ سارا کام جلد بازی میں کیا گیا ہے ۔ درخواست کی سماعت لاہور رجسٹری میں ہوئی ۔