زعیم قادری سے اپنے حلقے سے ٹکٹ نہیں چھینی گئی

وہ ایک دوسرے حلقے سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے اسی پر مسئلہ پیدا ہوا: مجیب الرحمان شامی

muhammad ali محمد علی جمعرات 21 جون 2018 19:39

زعیم قادری سے اپنے حلقے سے ٹکٹ نہیں چھینی گئی
لاہور (اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔21 جون 2018ء)  مجیب الرحمان کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ زعیم قادری سے اپنے حلقے سے ٹکٹ نہیں چھینی گئی، وہ ایک دوسرے حلقے سے الیکشن لڑنا چاہتے تھے اسی پر مسئلہ پیدا ہوا۔ تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اور سابق رکن اسمبلی و وزیر زعیم قادری کی جانب سے اختلافات کے باعث اپنی پارٹی کی قیادت کیخلاف بغاوت کر دی گئی ہے۔

زعیم قادری نے پارٹی قیادت کیخلاف بغاوت کرتے ہوئے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اس حوالے سے اب معروف و سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی کی جانب سے ردعمل دیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام سے گفتگو کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی نے اس تمام معاملے کی اندرونی کہان بیان کرتے ہوئے بتایا کہ زعیم قادری سے اپنے حلقے سے ٹکٹ نہیں چھینی گئی۔

(جاری ہے)

زعیم قادری لاہور میں اپنے حلقے کی بجائے ایک دوسرے حلقے سے الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ تاہم اس حلقے کیلئے امیدار کا فیصلہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔ اسی باعث زعیم قادری کے پارٹی قیادت خاص کر حمزہ شہباز کیساتھ اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ زعیم قادری کا موقف ہے کہ چونکہ وہ پارٹی کے دیرینہ اور نظریاتی رہنما ہیں، اس لیے انہیں ان کی پسند کے حلقے کا ٹکٹ دیا جائے۔

تاہم حمزہ شہباز کی جانب سے اس مطالبے کی مخالفت کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کے روز زعیم قادری نے مسلم لیگ ن کی قیادت سے ناراضگی کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 8اکتوبر 1999ء کو مسلم لیگ ن میں ایک ادنیٰ کارکن کی حیثیت سے عملی سیاست کا آغاز کیا۔اس کی بڑی وجہ میرے خون میں مسلم لیگ تھی ،ہے اور رہے گی۔تحریک پاکستان میں کارکردگی دکھانے پرتین گولڈمیڈلز سے نوازا۔

میرے والد ،اور دادا نے قائد اعظم کے کہنے پراس خطاب کولینے سے انکار کردیا جوانگریز نے ان کا دیا تھا۔یہ باتیں اس لیے کررہا ہوں کہ یہ باتیں میں نے کبھی بھی نہیں کیں۔انہوں نے کہاکہ میرے والد نے ایوب خان، یحیٰ خان ، ضیاء الحق اور ذوالفقار بھٹو کی سول آمریت میں جیلیں کاٹیں۔میں نے والد کے نقش قدم پرمسلم لیگ ن کے پلیٹ فورم سے سیاسی جدوجہد شروع کی۔

مسلم لیگ ن کا ترجمان رہا،سیکرٹری اطلاعات بھی رہا۔جوآج عہدوں پربیٹھے ہیں وہ ہمیں تب بے وقوف کہتے تھے۔کہ تم کس دیوار کے ساتھ ٹکر مار رہے ہو۔لیکن 2002ء کے الیکشن میں محترمہ کلثوم نواز اور نوازشریف کا کورنگ امیدوار تھا۔لیکن میری جگہ کچھ اور لوگوں کوآگے کردیا گیا۔پانچ سال پابند سلاسل بھی رہا۔شہبازشریف نے 2008ء کے شروع میں فون پربتایا کہ صدرکو تمہاری شکل پسند نہیں اس لیے جنرل سیکرٹری کا عہدہ چھوڑ دو۔

میں نے کوئی دوسرا سوال نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ پچھلے دس برس میں وہ لوگ جوپارٹی میں نہیں تھے ان کووزراء بنایا گیا۔لیکن انہوں نے پارٹی کودفاع نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ میں نے روزپانچ گھنٹے ٹی وی پراپنی سیاست اور جماعت کودفاع کیا۔لوگوں سے برابھلا سنا لیکن کبھی اس بات کاذکر نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ میں حمزہ شہبازشریف کے بوٹ پالش نہیں کرسکتا۔

میں سید ہوں۔اولاد امام حسین ہوں۔جان دے سکتا ہوں عزت نہیں دوں گا۔لاہور تمہاری اور تمہارے باپ کی جاگیرنہیں ہے۔تمہیں سیاست کرکے دکھاؤں گا۔انہوں نے کہاکہ میں تمہاری نوکری نہیں کروں گا۔میں نوکری عوام کی کروں گا۔تم اپنے لاڈلوں ،بوٹ پالشیوں اور مالشیوں کولاؤ۔میرا الیکشن تمہارے ساتھ ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹکٹ کی بات نہیں ہے۔بس آج میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ لوگ جانتے ہیں کہ آپ دس سالوں میں کسی سے بھی نہیں ملے تھے۔میں پنجاب کے ورکرزکے پاس جاؤں گا۔اور آپ کیخلاف جنگ لڑوں گا۔میں پچھلے دس سالوں میں میرا کیا حال تھا یہ بھی بتادوں گا۔انہوں نے کہا کہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلا ن کرتا ہوں۔