تحریک طالبان پاکستان ملا فضل اللہ کی ہلاکت پر ٹویٹر صارفین خوش

سانحہ اے پی ایس کے ماسٹر مائنڈ کی ہلاکت پر مبارکباد پیش کیں

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 15 جون 2018 16:35

تحریک طالبان پاکستان ملا فضل اللہ کی ہلاکت پر ٹویٹر صارفین خوش
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15 جون 2018ء) : افغانستان کے علاقے کنٹر میں ڈرون حملے کے نتیجے میں طالبان رہنما ملا فضل اللہ کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق افغان وزارتِ دفاع کے حکام نے صوبہ کنّڑ میں امریکی فوج کی کارروائی میں پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔وزارتِ دفاع کے ترجمان محمد رد منیش نے بی بی سی کو بتایا کہ ملا فضل اللہ کو 13 جون کو کنّڑ میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔

ملا فضل اللہ کی ہلاکت پر ٹویٹر صارفین نے بھی خوشی کا اظہار کیا اور ایک دوسرے کو مبارکبادیں پیش کیں۔ ٹویٹر پر #MullahFazlullah اورDroneAttack# کا ٹرینڈ بھی بن گیا ہے۔ سینئر تجزیہ کار فہد حسین نے کہا کہ ہمارے دشمن ملا فضل اللہ کی ہلاکت پوری پاکستانی قوم کو مبارک ہو۔

(جاری ہے)

ملا فضل اللہ کو ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا ہے۔ملا فضل اللہ اور اس کے آدمیوں نے کئی قیمتی جانیں لیں جن کا بدلہ آج لے لیا گیا ہے۔

ایک صارف کا کہنا تھا کہ تاحال طالبان کی جانب سے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی گئی، ہو سکتا ہے کہ نئے امیر کی تعیناتی تک ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق نہ کی جائے۔
عثمان صدیقی نامی صارف نے کہا کہ الحمد لللہ ملا فضل اللہ کو جہنم واصل کر دیا گیا ہے۔ اے پی ایس کے 150 سے زائد بچوں اور کئی پاکستانیوں کے قاتل کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔

انہوں نے اپنے پیغام میں امریکہ کا شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ اب اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ افغانستان میں طالبان کی سینئیر قیادت موجود ہے۔
ایک صارف نے ملا فضل اللہ کی ہلاکت پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی شکریہ ادا کیا۔
کچھ صارفین نے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کو پاکستانیوں کے لیے عید کا تحفہ قرار دیا اور کہا کہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت سے افغاستان اور بھارتی گٹھ جوڑ کو ایک دھچکا لگے گا۔

ایک صارف نے کہا کہ اگر ملا فضل اللہ واقعی ہلاک ہو گیا ہے، تو یہ پاکستان کے لیے بہت اچھی خبر ہے۔
ایک صارف نے لکھا کہ بے شک عید الفطر کے موقع پر پاکستانیوں کے لیے یہ ایک بہت اچھی خبر ہے۔
کچھ صارفین نے اے پی ایس کے ننھے شہدا کی تصاویر بھی شئیر کیں اور لکھا کہ آج ان کی موت کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔

ایک صارف نے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کو آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے دورہ افغانستان سے جوڑ دیا اور کہاکہ ضرور آرمی چیف جنرل باجوہ نے افغان حکام کو کچھ کہا ہو گا جس کے بعد یہ ممکن ہو سکا۔
واضح رہے کہ تحریک طالبان پاکستان ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبر ایک ایسے وقت منظر عام پر آئی ہے جب عید الفطر کے موقع پر افغان حکومت اور طالبان نے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔

2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نے غیر مشروط جنگ بندی کا اعلان کیا۔ ماضی میں بھی ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں، تاہم اب افغان حکام نے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔ یاد رہے کہ ملا فضل اللہ کا ایک بیٹا بھی رواں برس مارچ میں ڈرون حملے میں ہی مارا گیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ ملالہ یوسفزئی پر حملے سمیت پاکستان میں دہشتگردی کے کئی واقعات میں ملوث تھا ۔

ملا فضل اللہ سانحہ اے پی ایس کا ماسٹر مائنڈ تھا جس میں کئی معصوم کلیاں مُرجھا گئی تھیں۔ملا فضل اللہ 1974ء میں سوات میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق یوسفزئی قبیلے کی بابوکارخیل شاخ سے تھا اور وہ ایک پاؤں سے معمولی معذور بھی تھے۔ 2013ء میں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت ہو گئی تھی اس کے بعد فضل اللہ کو تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔

ملا فضل اللہ کو حکیم اللہ محسود سے زیادہ خطرناک قراردیا گیا۔ ملا فضل اللہ پر کئی سنگین الزامات عائد ہیں جن میں سب سے بڑا الزام سوات میں ہونے والی قتل و غارت کا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ملا فضل اللہ نے 2005ء اور 2006ء میں سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل کا آغاز کیا جس کی وجہ سے بہت کم عرصے میں ملا فضل اللہ کو لوگوں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔

اس ایف ایم چینل پر مغرب خصوصاً امریکہ، حفاظتی ٹیکوں، لڑکیوں کی پڑھائی کے خلاف خطبے دیے گئے۔ ملا فضل اللہ سوات میں طالبان کے دور میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کے بھی ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں ۔ملا فضل اللہ 2007ء میں لال مسجد آپریشن میں بھی ملوث تھا۔جب کہ ملا فضل اللہ پاکستان میں ہونے والے متعدد خود کش دھماکوں کا بھی ماسٹر مائنڈ تھا۔ کراچی ائیرپورٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے پیچھے بھی ملا فضل اللہ کا ہاتھ تھا۔

مئی 2009ء میں پاکستانی فوج نے سوات میں فیصلہ کن کارروائی شروع کی تو ضلع کے بیشتر مقامات سے مولانا فضل اللہ کے حامی عسکریت پسندوں کو شکست کے بعد نکال دیا گیا۔اسی کارروائی کے دوران مولانا فضل اللہ اچانک غائب ہوکر افغانستان بھاگ گیا تھا۔ جب کہ امریکی محکمہ وزارت خارجہ کے مطابق ملا فضل اللہ یکم مئی 2010ء کو نیو یارک کے ٹائمز اسکوائرمیں دھماکے کی ناکام کوشش میں بھی ملوث ہے۔

سوات کی کم عمر طالبہ علم ملالہ یوسف زئی پر بھی اکتوبر 2012ء کو سوات میں قاتلانہ حملہ کرنے کا ماسٹر مائنڈ ملا فضل اللہ کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ سوات کی دوسری جنگ میں پاکتانی فوج نے اس علاقے سے طالبان کا خاتمہ کیا تو نیویارک ٹائمز کے صحافی ایڈم بی ایلک نے ملالہ کی زندگی کے بارے ڈاکومنٹری بنائی۔ ملالہ مشہور ہو گئیں اور اس کے انٹرویو اخبارات اور ٹی وی کی زینت بننے لگے۔

ملالہ یوسفزئی کا نام بین الاقوامی امن ایوارڈ برائے اطفال کے لیے جنوبی افریقہ کے ڈیسمنڈ ٹوٹو نے پیش کیا۔ امن کی علامت ہونے اور لڑکیوں کی پڑھائی کو فروغ دینے پر بعد ازاں ملالیہ یوسفزئی کو نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ ا فضل اللہ گروپ 2013ء میں میجر ثنا اللہ زہری کے قتل میں بھی ملوث تھا، 16دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک سکول پشاور میں ایک بہت بڑا دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا تھا جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

اس افسوسناک واقعے میں بزدل دہشت گردوں نے ڈیڑھ سو سے زائد ننھے بچوں کو شہید کر دیا تھا۔ 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر طالبان کے حملے کا ماسٹر مائنڈ بھی ملا فضل اللہ کو ہی قرار دیا جاتا ہے۔ اس سانحہ میں شہید ہونے والوں میں اسکول کا عملہ بھی شامل تھا جب کہ اکثریت ننھے اور معصوم بچوں کی تھی۔ ملا فضل اللہ کئی فوجیوں کے سر تن سے جدا کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔

امریکی حکومت نے 2015ء میں ملا فضل اللہ کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا تھا اور پاکستانی طالبان کے سربراہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر 50 لاکھ ڈالر کے انعام کا اعلان بھی تھا۔ملا فضل اللہ دہشت گرد کاروائیوں کی وجہ نے نہ صرف امریکہ بلکہ پاکستان کو بھی مطلوب تھا۔ پاکستان امریکہ سے متعدد بار مطالبہ کر چکا تھا کہ وہ افغانستان میں کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے۔

ملا فضل اللہ کا ایک بیٹا بھی رواں برس مارچ میں ڈرون حملے میں ہی مارا گیا تھا۔ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں کئی بار میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں۔گزشتہ رات پھر سے ملا فضل اللہ کے مارے جانے کی اطلاعات میڈیا پر گردش کر رہی تھیں تاہم اب افغانستان کے علاقے کنٹر میں ڈرون حملے کے نتیجے میں طالبان رہنما ملا فضل اللہ کے ہلاک ہونے کی تصدیق ہو گئی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق افغان وزارتِ دفاع کے حکام نے صوبہ کنّڑ میں امریکی فوج کی کارروائی میں پاکستانی طالبان کے سربراہ ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی۔وزارتِ دفاع کے ترجمان محمد ردمنیش نے بی بی سی کو بتایا کہ ملا فضل اللہ کو 13 جون کو کنّڑ میں ہونے والے امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا۔افغانستان میں امریکی فوج کے ترجمان لیفٹینٹ کرنل مارٹن اوڈونل کی جانب سے جمعرات کی شب ایک بیان جاری گیا تھا جس میں کہا گیا کہ 13 اور 14 جون کی شب امریکی فوج نے پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک کارروائی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کارروائی کا ہدف دہشت گرد قرار دی گئی ایک تنظیم کا سینیئر رہنما تھا تاہم اس وقت امریکی فوج کی جانب سے کارروائی اور اس میں نشانہ بنائے جانے والے افراد کے بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کی گئی تھیں۔ ماضی میں بھی ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں منظر عام پر آتی رہی ہیں، تاہم اب افغان حکام نے ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔