سارک خطے میں پاکستان کے بغیر پائیدار امن اور خوشحالی ممکن نہیں‘افتخار علی ملک

جمعہ 15 جون 2018 14:39

سارک خطے میں پاکستان کے بغیر پائیدار امن اور خوشحالی ممکن نہیں‘افتخار ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جون2018ء) سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے پاکستان کو دیگر علاقائی اداروں سے باہر رکھنے اور سارک کی ترقی کو روکنے پر بھارت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں پاکستان کے بغیر پائیدار امن اور خوشحالی ممکن نہیں اور صرف وہی تنظیم زیادہ مؤثر ہو گی جس میں پاکستان شامل ہوگا، خطے کے تمام مسائل کا حل سارک کو متحرک کرنے میں ہی پنہاں ہے اور سائوتھ ایشیئن سب ریجنل اکنامک کوآپریشن جیسی کوئی بھی تنظیم پاکستان کی شمولیت تک موثر نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے یہ بات جمعہ کے روز ٹیلی فون پر کولمبو میں سارک چیمبر کے صدر رووآن ایدر سنگھے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ جنوبی ایشیائی حکومتوں کو اپنے وعدوں کی تکمیل کیلئے علاقائی بنیادی ڈھانچے کی ترقی، حساس فہرستوں کا خاتمہ اور مقامی ٹیکس کی حد سمیت مخفی رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کو علاقائی تجارت کا گیٹ وے اور مرکز بنانے، علاقائی و عالمی مارکیٹوں میں تجارت و علاقائی ویلیو چینز کے فروغ اور عوام کے معیار زندگی میں مسابقت اور اسے بہتر بنانے کے لئے خطے کے ممالک کے حکمرانوں میں نئے سیاسی وژن اور عزم کی ضرورت ہے۔

اس سے صنعتی ضروریات اور ’’انڈسٹری ٹو انڈسٹری‘‘ تعلق کے فروغ، خطے کے پوٹینشل کو بروئے کار لانے اور پائیدار ترقی اہداف کے حصول میں مدد ملے گی، علاوہ ازیں باہمی تعاون کے ذریعے ہم حالیہ برسوں میں ترقی کی شرح کو برقرار رکھنے، خطہ کے قدرتی وسائل سے بھر پور استفادہ اور صنعت اور انفراسٹرکچر کی فراہمی میں بھی کامیاب ہو سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو جنوبی ایشیا میں بامقصد باہمی تعاون کو فروغ دینے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، یہ چیلنج صرف اسی صورت میں پورا ہوسکتا ہے جب بھارت ، پاکستان اور تمام پڑوسی ممالک اپنے عوام کے فائدہ کے لئے باہم مل کر کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ کسی بھی دوسرے خطے میں ہم آہنگی اور تعاون کی اس قدر ضرورت نہیں جس قدر سارک میں ہے کیونکہ ہم کسٹم اور سرحد پار تجارت کے لحاظ سے بہت پیچھے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سارک چیمبر ممبر ممالک کو مشترکہ چیلنجوں اور حل طلب امور پر تبادلہ خیال کرنے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسٹم حکام کے درمیان باقاعدگی سے بات چیت خطے میں تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے میں معاون ہوتی ہے اور کمپنیوں اور افراد کو سرحد پار تجارت کو کم لاگت اور تیز رفتار بنانے، مارکیٹ رسائی، بزنس کے فروغ، روزگار کے نئے مواقع اور بین الاقوامی اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے میں مدد ملتی ہے۔

افتخار علی ملک نے مزید کہا کہ خطے کے ترقیاتی اہداف کو پورا کرنے اور اس میں گراوٹ سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ترقی، غربت کے خاتمے اور مشترکہ خوشحالی کے لئے بنیادی ڈھانچے کے فرق کو کم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لئے 2020 تک جنوبی ایشیا میں انفراسٹرکچر پر خرچ کرنے کے لئے 2.5 ٹریلین ڈالر کی ضرورت ہوگی تاکہ اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے بجلی کے گرڈ، سڑکوں اور پانی کی فراہمی کو مطلوبہ معیارتک پہنچایا جا سکے۔