مشرق وسطیٰ کی سفارتکاری کے لئے امریکہ کا نیا پینترا،ڈیوڈ شینکیر امریکی وزیر خارجہ کا معاون نامزد

شام میں امریکہ کی موجودگی سے ماسکو پر برتری حاصل ہو گی، فلسطینی اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کر لیں، ڈیوڈ شینکیر

جمعہ 15 جون 2018 14:34

واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 جون2018ء) مشرق وسطیٰ کے لئے امریکی سفارت کاری کے میدان میں جلد ہی ایک نیا چہرہ سامنے آگیا،ٹرمپ نے ڈیوڈ شینکیرکو امریکی وزیر خارجہ کا مشرق وسطی کے امور کا معاون نامزد کر دیا، یہ نادر نامزدگی معمول سے ہٹ کر عمل میں آئی ہے،شام میں امریکی فورسز کی موجودگی سے واشنگٹن کو ماسکو پر برتری رہے گی، فلسطینی اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم کر لیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق مشرق وسطی میں امریکی سفارت کاری کے میدان میں جلد ہی ایک نیا چہرہ سامنے آنے والا ہے جس کو عرب دنیا نے اکثر اوقات ٹیلی وژن اسکرین کے ذریعے دیکھا ہے جب عرب حکومتیں اسے تحقیق سے متعلق اداروں کے حوالے سے جانتی ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزارت دفاع کے سابق عہدے دار اور واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے محقق ڈیوڈ شینکیرکو امریکی وزیر خارجہ کا مشرق وسطی کے امور کا معاون نامزد کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

دل چسپ بات یہ ہے کہ ڈیوڈ شینکیر نے وزارت خارجہ میں کبھی کام نہیں کیا بلکہ ان کی یہ نادر نامزدگی معمول سے ہٹ کر عمل میں آئی ہے۔امریکی وزارت خارجہ میں مشرق قریب کے شعبے نے 1974 سے مشرق وسطی کے خطے پر توجہ دینا شروع کی۔ اس دوران مراکش سے لے کر ایران تک ایسے افراد نے سفارتی ذمے داری سنبھالی جو طویل عرصے تک وزارت خارجہ میں کام کر چکے تھے اور وہ سفیر بھی رہ چکے تھے۔

اس حوالے سے واحد استثنا صدر بل کلنٹن کی جانب سے 1997 میں سامنے آیا جب انہوں نے مارٹن اینڈک کو معاون وزیر خارجہ کے طور پر نامزد کر دیا۔ اینڈک اس وقت سفارتی حلقے سے باہر کی شخصیت کے طور پر اسرائیل میں سفیر تھے۔ وہ کلنٹن کی مدت صدارت کے آخری مہینوں کے دوران دوبارہ سے وہاں لوٹ آئے تھے۔قابل غور بات یہ بھی ہے کہ مارٹن اینڈک اور ڈیوڈ شینکیر دونوں ہی واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ میں کام کر چکے ہیں۔

جمعرات کے روز ڈیوڈ شینکیر امریکی سینیٹ میں خارجہ کمیٹی کے اجلاس میں موجود تھے۔ اس موقع پر انہوں نے مشرق وسطی میں مطلوب آئندہ امریکی لائحہ عمل پر روشنی ڈالی۔ شینکیر کے مطابق مشرق وسطی میں امریکی حکومت کو درپیش چیلنجوں میں بعض ممالک میں حکومتوں کا سقوط، دہشت گردی اور ایرانی مداخلت شامل ہیں۔ شینکیر نے زور دیا کہ وہ خطے میں ایرانی نفوذ کے پھیلا کا مقابلہ کرنے کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔

ایران سے نمٹنے کے لیے شینکیر نے بعض تدابیر کا ذکر کیا جن میں جوہری معاہدے پر اختلاف کے باوجود واشنگٹن اور یورپی ممالک کے درمیان تعاون شامل ہے۔ شینکیر نے ایران پر پابندیاں سخت کرنے، شام میں امریکی فوجیوں کے باقی رہنے، یمن میں حوثی ملیشیا کے لیے ایران کے ہتھیار پہنچانے کا راستہ روکنے اور عراق کو ایرانی رسوخ کے دائرے سے باہر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

شینکیر نے بعض ایسی آرا پیش کیں جو خارجہ کمیٹی کے ارکان کے لیے باعث حیرت تھیں۔ انہوں نے ایک طرف زور دیا کہ یمنی فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر کسی سیاسی حل تک پہنچنا چاہیے اور دوسری جانب خارجہ کمیٹی کے ارکان کے سامنے یہ بات دہراتے رہے کہ وہ شام میں امریکی فورسز کے باقی رہنے کی تائید کرتے ہیں۔اس لیے کہ یہ فورسز داعش کا خاتمہ کر رہی ہیں اور مقامی فریقوں کی تربیت میں مدد کر رہی ہیں تاکہ داعش کو پھر سے لوٹنے سے روکا جا سکے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی فورسز کے باقی رہنے سے شام میں ماسکو کے مقابل امریکی پوزیشن مضبوط ہو گی۔ڈیوڈ شینکیر نے دو ریاستی حل کی تائید کی تاہم انہوں نے کہا کہ اس امر کا تعلق تنازع کے دونوں فریقوں سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں فریقوں پر لازم ہے کہ وہ رعائیتیں پیش کریں اور دشوار فیصلے کریں۔ شینکیر نے واضح کیا کہ فلسطینیوں کی جانب سے اسرائیل کو ایک "یہودی ریاست" تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔