ترجمان نادرا نے نجی ٹی وی شو میں لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا

بے بنیاد الزامات ایسے شخص نے لگائے جسے اختیارات سے تجاوز ، غلط استعمال کرنے پر نوکری سے فارغ کیا گیا نادرا الیکشن کمیشن کو آئین اور قانون کے تحت تکنیکی سطح پر مدد فراہم کر رہا ہے، نادرا پر دھاندلی کا الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہے ،مقصد الیکشن کو متنازعہ بنا نا ہے،بیان

جمعرات 14 جون 2018 18:47

ترجمان نادرا نے نجی ٹی وی شو میں لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کردیا
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 جون2018ء) ترجمان نادرا نے ایک نجی ٹی وی شو میں نادرا پر لگائے گئے تمام الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بے بنیاد الزامات ایسے شخص (سابق ڈپٹی چیئرمین سید مظفر علی شاہ) نے لگائے جن کو نادرا نے بطور ڈپٹی چیئرمین اختیارات سے تجاوز اور اس کا غلط استعمال کرنے پر محکمانہ کاروائی کے بعد نوکری سے فارغ کیا گیا ایک ٹی وی پروگرام میں سید مظفر شاہ کے نادرا پر لگائے گئے الزامات ان کے خلاف قوائد اور ضوابط پر لئے گئے اقدامات کی ایک کڑی ہیں جمعرات کو یہاں جاری کئے گئے بیان میں ترجمان نے کہا کہ نادرا کا جنرل الیکشن میں بہت ہی محدود کردار ہے جس کی بنا پر نادرا پر الزامات سید مظفر علی شاھ کے ذہنی اختراع کی ترجمانی کرتے ہیں۔

نادرا الیکشن کمیشن پاکستان کو آئین اور قانون کے تحت تکنیکی سطح پر مدد فراہم کر رہا ہے۔

(جاری ہے)

نادرا پر دھاندلی کا الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہے جس کا مقصد الیکشن کو متنازعہ بنا دینا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت نادرا نے ایک انٹرنیٹ پر مبنی سافٹ ویئر تیار کیا جو سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کے حوالے کیا گیا۔

نادرا نے تمام حل سپریم کورٹ کے سامنے پیش کئے۔ سابق چیئرمین نادرا طارق ملک صاحب کا الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر مبنی سسٹم بھی سپریم کورٹ کے پاس موجود تھا جو قابل عمل نہ پایا گیا اور نادرا کو نیا سسٹم بنانے کو کہا گیا جو نادرا نے مقررہ مدت میں سسٹم بنا کر چیف جسٹس اور الیکشن کمیشن کو پیش کیا۔ ترجمان نے انتقال شدہ لوگوں کے شناختی کارڈ کی منسوخی کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ نادرا انتقال شدہ لوگوں کے کارڈ خودساختہ سسٹم کہ ذریعے نہیں کرتا۔

انتقال شدہ لوگوں کے شناختی کارڈ کی منسوخی کا ایک سسٹم وضح کیا گیا ہے جو 2103 میں بھی یہ ہی سسٹم مروج تھا جس کہ تحت انتقال شدہ شخص کہ لواحقین یونین کاؤنسل یا نادرا کو مذکورہ شخص کے انتقال ہونے کی درخواست دیتا ہے جس کہ تحت کارڈ منسوخ کیا جاتا ہے۔ ترجمان نے نادرا ڈیٹابیس کی لیتھونیا منتقلی کے الزام پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ نادرا کا ڈیٹا بیس ایک محفوظ ڈیٹا بیس ہے جس کی باہر ملک منتقلی ایک جھوٹ پر مبنی دعوی ہے۔

ترجمان نے واضح کیا کہ عثمان یوسف مبین کی بطور چیئرمین نادرا دوبارہ تعیناتی ایک مطابقت پذیر عمل کے تحت ہوئی جس کی منظوری وفاقی کابینہ نے دی۔ جبکہ 2014 میں بھی ان کی تعیناتی بطور چیئرمین نادرا میرٹ پر مسابقتی عمل کے ذریعے ہی ہوئی تھی جس کی منظوری وزیر اعظم پاکستان نے دی۔ ترجمان نے سید مظفر علی شاہ کو نادرا سے فارغ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سید مظفر علی شاہ الیکشن 2013 کی ووٹر لسٹ کے انچارج آفیسر تھے۔

الیکشن 2013 کی ووٹر لسٹ میں موجود خامیاں اور بے ضابطگیاں ان کے دؤر میں ہوئیں۔ جس پر 2015 میں ان کو اٴْس عہدے سے ہٹایا گیا۔ ترجمان نے کہا کہ الیکشن 2013 میں مقناطیسی سیاہی کی خریدو فروخت کی بیضابطگیاں میں بھی موصوف شامل رہے جس کا نادرا کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔ سید مظفر علی شاہ کے ہی کہنے پر عام سیاہی سے پانچ گناہ زیادہ مہنگی مقناطیسی سیاہی خریدی گئی۔

جس پر حکومت پاکستان کے اربوں روپے خرچ ہوئے جو بعد ازاں انگوٹھوں کی تصدیق میں سود مند ثابت نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی تھی۔ ترجمان نے کہا کہا کہ سید مظفر علی شاہ نادرا میں جنرل مینیجر اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر تعینات رہے۔ بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے ان کی تعیناتی بطور ڈپٹی چیئرمین نادرا غیر قانونی قرار دی۔ ترجمان کے مطابق سید مظفر علی شاہ نے دوران ملازمت اپنے اختیارات سے تجاوز اور اس کہ غلط استعمال کرنے میں ملوث پائے گئیجس پر چیئرمین نادرا نے تین سینئر ڈائریکٹر جنرل پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی قائم کی۔

تحقیقاتی کمیٹی نے سید مظفر علی شاہ سے تحقیقات کیں۔تحقیقاتی کمیٹی کہ پاس موجود شواہد اور گواہان کے بیانات کا سید مظفر علی شاہ تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے تھے۔ جبکہ وزیر اعظم سیکرٹریٹ نے چیئرمین نادرا کو ڈپٹی چئرمین نادرا سید مظفر علی شاہ کی طرف سے نادرا خاتون اہلکار سیدہ شاہین بخاری سے غیر اخلاقی طور پر ہراساں کرنے پر سخت کارروائی کا کہا تھا ترجمان نے کہا کہ نادرا نے وزیر اعظم سیکرٹریٹ کو تین ڈی۔

جی پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ ارسال کی گئی رپورٹ کے مطابق ڈپٹی چئرمین نادرا پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزامات ثابت ہوئے اور وہ قصوروار پائے گئے۔ جس پرنادرا نے سید مظفر علی شاہ کے خلاف سخت کاروائی کرتے ہوئے خا تون اہلکار کو بھی انصاف مہیا کیا گیا۔ترجمان نے کہا کہ یہاں یہ بات بیان کرنا ضروری ہے کہ دوران ملازمت بطور ڈپٹی چیئرمین نادرا سید مظفر علی شاہ نے خاتون اہلکار کے گھر جا کر اگلے گریڈ میں ترقی دینے، تنخواہ بڑھانے اور مرضی کی پوسٹنگ دینے کے ساتھ ساتھ شوہر کو نادرا میں نوکری دینے کی پیشکش کی اور خاتون اہلکار کو اپنے حق میں بیان دینے کوکہا۔

ترجمان نے کہا کہ سید مظفر علی شاہ نے صورتحال دیکھتے ہی اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال شروع کیا اور خاتون اہلکار کو تمام کیسز سے بری کرنے کے احکامات جاری کئے جو کہ ان کے اختیار میں نہیں تھے۔ جبکہ اس کے برعکس سید مظفر علی شاہ نے متاثرہ خاتون کے خلاف سپریم کورٹ میں جھوٹا بیان جمع کروایا۔