ایس سی او کے زیر اہتمام پا ک بھا رت فو جیں ’’امن مشن ‘‘کے تحت اگست میں مشتر کہ مشقو ں کیلئے تیار ہیں ‘چینی میڈیا رپورٹس

علاقائی امن برقرار رکھنے میں ایس سی او کا کردار ظاہر ہونا شروع ‘تقسیم ہند کے بعد سے پاک بھارت تنازعات باعث جنوب ایشیائی علاقائی انضمام کیلئے زبردست رکاوٹ بنے رہے ‘اس پس منظر میں دونوں کے مشترکہ فوجی تربیت میں حصہ لینے پر متفق ہونا اچھی بات ہے‘شنگھائی تعاون تنظیم مل جل کر کام کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کو پلیٹ فورم مہیا کرتی ہے‘محسوس ہوتا ہے شنگھائی تعاون تنظیم نے دونوں کے درمیان تعاون کا جذبہ پیدا کر دیا ہے چینی سرکاری جریدہ گلوبل ٹائمز نے ’’شنگھا ئی تعاون تنظیم ‘‘کو پاک بھارت مابین کشیدگی میں کمی کا موثر ذریعہ قرار دیدیا

جمعرات 14 جون 2018 18:05

بیجنگ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 14 جون2018ء) چین کے سرکاری جریدہ گلوبل ٹائمز کا کہنا ہے کہ شنگھا ئی تعاون تنظیم کے زیر اہتمام پا ک بھا رت فو جیں ’’امن مشن ‘‘کے تحت اگست میں مشتر کہ مشقو ں کیلئے تیار ہیں‘علاقائی امن برقرار رکھنے میں ایس سی او کا کردار ظاہر ہونا شروع ‘تقسیم ہند کے بعد سے پاک بھارت تنازعات باعث جنوب ایشیائی علاقائی انضمام کیلئے زبردست رکاوٹ بنے رہے ‘اس پس منظر میں دونوں کے مشترکہ فوجی تربیت میں حصہ لینے پر متفق ہونا اچھی بات ہے‘شنگھائی تعاون تنظیم مل جل کر کام کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کو پلیٹ فورم مہیا کرتی ہے‘محسوس ہوتا ہے شنگھائی تعاون تنظیم نے دونوں کے درمیان تعاون کا جذبہ پیدا کر دیا ہے۔

جمعرات کو چین کے سرکاری جریدہ گلوبل ٹائمز کی رپورٹس کے مطابق پاکستان اور بھارت کی افواج شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) ڈھانچے کے تحت رواں سال اگست میں منعقد ہونے والی مشترکہ فوجی مشق ’’امن مشن 2018‘‘ میں حصہ لیں گی۔

(جاری ہے)

دونوں ممالک کے فوجی پہلی مرتبہ وار گیم کیلئے مشترکہ تربیت میں حصہ لیں گے گلوبل ٹائمز کے مطابق علاقائی امن برقرار رکھنے میں ایس سی او کا کردار ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے ،1947میں تقسیم ہند کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان یکے بعد دیگرے تنازعات ہوتے رہے ہیں ،دونوں کے درمیان تضادات کی وجہ سے جنوب ایشیائی علاقائی انضمام کیلئے زبردست رکاوٹیں درپیش رہی ہیں ،اس پس منظر میں دونوں کے مشترکہ فوجی تربیت میں حصہ لینے پر متفق ہونا اچھی بات ہے ،جون2017میں جب بھارت اور پاکستان کو شنگھائی تعاون تنظیم کے مکمل رکن کے طور پر قبول کیا گیا بعض مبصرین کو خدشہ لاحق تھا کہ درینہ دشمن تنظیم کو ایک دوسرے سے لڑنے کے پلیٹ فورم میں تبدیل کر دیں گے ،لیکن اب ایسا دکھائی دیتا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم نے دونوں کے درمیان تعاون کا جذبہ پیدا کر دیا ہے ۔

1972میں سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن کی چین میں اپنے ہم منصب مائوزے تنگ کی ملاقات سے قبل انہوں نے خود سے تین سوال پوچھے ۔چین کیا چاہتا ہے امریکہ کیا چاہتا ہے وہ دونوں کیا چاہتے ہیں نکسن سمجھ گئے کہ تیسرا سوال کوئی معاہدہ کرنے کیلئے دونوں کیلئے کلید ہے بھارت اور پاکستان بھی جانتے ہیں کہ وہ دونوں کیا چاہتے ہیں یعنی پرامن ترقی دونوں ممالک اس امر سے با خبر ہیں کہ انہیں برطانی نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے پیدا ہونے والی بھرپورمخالفت سے جان چھڑانی چاہیے اور تعاون کیلئے کوشش کریں ۔

برطانی راج سے اپنی آزادی حاصل کئے انہیں 70سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور اب وقت ہے کہ نو آبادیاتی چنگل سے باہر نکلا جائے۔نئی دہلی اور اسلام آباد کے کافی مشترکہ مفادات ہیں وہ دونوں دہشتگردی کے خلاف کارروائی کرنا چاہتے ہیں ، اپنے ملکی اقتصادی مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں اور اپنے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں ۔تاہم امن اور استحکام یا علاقائی انضمام کے بغیر یہ مقاصد تشنہ حصول رہ سکتے ہیں ۔

بھارت بین الاقوامی اکھاڑے میں اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے تاہم پاکستان کے ساتھ محاذ آزرائی اس کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنانے میں حائل ہے ۔ اسی طرح پاکستان نے بھی بھارت کے ساتھ اپنے چیلنجوں کیلئے کافی وسائل خرچ کئے ہیں مخالفت کو ترک کر کے ہی وہ اقتصادی ترقی کر توجہ مبذول کر سکتے ہیں اور وسیع تر اہم اور سفارتی ربط حاصل کر سکتے ہیں ، شنگھائی تعاون تنظیم مل جل کر کام کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت کو پلیٹ فورم مہیا کرتی ہے ، لیکن یہ ان کا واحد موقع نہیں ہے ،بیلٹ و روڈ منصوبہ بھی مشترکہ مفادات کیلئے تعاون کی وکالت کرتا ہے بھارت کافی عرصے سے اس بار میں مشکوک ہے تاہم چین بھارت کی پیداواری صنعت کام ،صاف توانائی وغیر ہ میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور اگرچہ یہ بیلٹ و روڈ منصوبے کے نام پر نہیں کی جا رہی ہے ،تاہم اس میں پروگرام کا ہی جذبہ شامل ہے ،پاکستان اور بھارت کی آئندہ مشترکہ فوجی تربیت کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہے ،امید کی جاتی ہے کہ دونوں ممالک مستقبل کے تعاون کی بنیاد کیلئے باہمی اعتماد قائم کریں گے۔