بین الاقوامی میثاقِ توانائی معاہدہ (ای سی ٹی) پردستخط سے پاکستان کو نئی ثالثی سرمایہ کاری قوانین سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے

اس معاہدے کے تحت کئی بااثر سرمایہ کاروں نے دنیا کے مختلف ٹر بیونلز میں مختلف ممالک کے خلاف 35 ارب ڈالر کے لیے مقدمہ دائر کیا ہوا ہے، رپورٹس

بدھ 13 جون 2018 18:15

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 جون2018ء) پاکستان کے بین الاقوامی میثاقِ توانائی معاہدہ (ای سی ٹی) پر باضابطہ دستخط کرنے کی وجہ سے اسے نئے ثالثی سرمایہ کاری قوانین سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، جبکہ اس معاہدے کے تحت کئی بااثر سرمایہ کاروں نے دنیا کے مختلف ٹر بیونلز میں مختلف ممالک کے خلاف 35 ارب ڈالر کے لیے مقدمہ دائر کیا ہوا ہے۔

میڈ یا کی رپورٹ کے مطابق یہ تنبیہ یورپ کے دو غیر منافع ریسرچ اور ایڈوکیسی گروپ کارپوریٹ یورپ آبزرویٹری (سی ای او) اور دی ٹرانزنیشنل انسٹیٹوٹ (ٹی این ائی) کی پاکستان میں ای سی ٹی کے اثرات کے حوالے سے تحقیق میں سامنے آئی ہے پاکستان 2006 سے ای سی ٹی میں نگراں ممالک کے طور پر شامل ہے، تاہم یہ ملک میں زیادہ سرمایہ کاری اور توانائی فنڈنگ کے لیے اس کا فل ممبر بننے کا خواہاں ہے۔

(جاری ہے)

دنیا کے 88 ممالک اس تنظیم کے ممبر ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق یورپ سے ہے۔خیال رہے کہ ای سی ٹی ایسا طاقت ور اآلہ ہے جو بڑی ائل، گیس اور کوئلے کی پیداواری کمپنیوں کو حکومتوں کو ’کلین انرجی‘ کی جانب منتقلی میں ان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان میں ثالثی سرمایہ کاری ایک متنازع فعل ہے لیکن پھر بھی حکومت ای سی ٹی کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بین الاقوامی کمپنیاں اس بین الاقوامی سرمایہ کاری کی مدد سے حکومتوں کے خلاف 35 ارب ڈالر تک کے مقدمے بین الاقوامی ریبیونل میں دائر کیے ہوئے ہیں۔بین الاقوامی نگراں اداروں کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان اس وقت ایک ترک کمپنی کو کارکے رینٹل پاور کیس میں 80 کروڑ ڈالر کا ثالثی ایوارڈ ختم کروانے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب پاکستان کو پہلی مرتبہ 1995 میں سوئیٹزرلینڈ کے ساتھ دو طرفہ معاہدے سے 2001 میں بین الاقوامی مقدمے کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت حکومت میں کوئی بھی معاہدے کا مواد حاصل نہیں کرسکا، اور انہیں سوئیز حکومت سے اس کی نقل کی درخواست کرنی پڑی۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ تھر کے ریگستان میں چینی اور پاکستانی سرمایہ کار نئے پاور پلانٹ کے لیے گندے بھورے کوئلے کے لیے کھدائی کر رہے ہیں۔

مقامی اآبادی اپنے اباؤ اجداد کی جائیداد کے حصول کے لیے جنگ کر رہے ہیں، اور انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ کوئلے کی کانوں کی وجہ سے خشک سالی زدہ خطے میں فضائی اآلودگی میں اضافہ، زیرِ زمین پانی ختم ہورہا ہے اور ذریعہ معاش بھی ختم ہوجائے گا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان پلانٹس سے اربوں ٹن کاربن ڈائی اکسائیڈ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی والی اآب و ہوا میں اخراج ہوگا۔رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر چین اور پاکستان ای سی ٹی میں شامل ہوجائیں، اور اس کے بعد اگر مستقبل میں پاکستانی حکومت ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنے وعدوں کی پاسداری کا فیصلہ کرتا ہے تو ایسے میں چینی سرمایہ کار اربوں ڈالر کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔۔