موبائل کمپنیوں نے سپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اُڑا دئے

سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود موبائل کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس کٹوتی جاری

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین بدھ 13 جون 2018 14:10

موبائل کمپنیوں نے سپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اُڑا دئے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 13 جون 2018ء) : ملک بھر کی موبائل کمپنیوں نے سپریم کورٹ کے احکامات ہوا میں اُڑا دئے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود موبائل فون کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے۔ موبائل صارفین کی جانب سے موصول ہونے والی خبروں کے مطابق صارفین کو کارڈ لوڈ پر تاحال ٹیکس کی ادائیگی کرنا پڑ رہی ہے۔ ٹیلی کام کمپنیز، جن کو سپریم کورٹ نے تمام ٹیکس معطل کرنے کا حکم دیا تھا، کا کہنا ہے کہ تاحال ہمیں عدالت کی جانب سے کوئی تحریری حکم نامہ موصول نہیں ہوا۔

ٹیلی کام کمپنیوں کے حکام کا کہنا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں تحریر دستاویزات کا موصول ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بعد ہی یہ معلوم ہو سکے گا کہ کس طریقہ کار کے تحت ٹیکس معطل کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

یاد رہے کہ دو روز قبل چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں موبائل فون کارڈز پر ٹیکس کٹوتی کے خلاف از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے موبائل کارڈز پر سروس چارجز ود ہولڈنگ ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کو معطل کر دیا ہے۔سپریم کورٹ نے کہا کہ یہاں پر لوگوں سے لوٹ مار کی جا رہی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ ریڑھی بان سے کیسے ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے؟ عدالت نے کہا کہ جس کا موبائل فون کا استعمال مقررہ حد سے زیادہ ہے اس سے ٹیکس وصول کیا جائے۔ ایک بندہ ٹیکس نیٹ میں ہی نہیں آتا تو پھر اس سے ٹیکس کیسے وصول کیا جا سکتا ہے؟چیف جسٹس نے ریمارکس د یئے کہ ٹیکس دہندہ اور نادہندہ کے درمیان فرق واضح نہ کرنا امتیازی سلوک ہے، آئین کے تحت امتیازی پالیسی کو کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔

100 روپے کا کارڈ لوڈ کرنے پر 38.64 پیسے وصول کیے جاتے ہیں جو غیر قانونی ہیں۔ کیس کی سماعت کے موقع پر چیئرمین ایف بی آر بھی عدالت میں پیش ہوئے ۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ جو شخص ٹیکس نیٹ میں نہیں آتا اس سے ٹیکس کیسے وصول کیاجا سکتا ہی جس پر چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ موبائل کالز پر سروسز چارجز کی کٹوتی کمپنیز کا ذاتی عمل ہے۔

چیئرمین ایف بی آر نے بتایا کہ 130ملین افراد موبائل استعمال کرتے ہیں جبکہ ملک بھر میں ٹیکس دینے والے افراد کی مجموعی تعداد 5 فیصد ہے۔ اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ 5 فیصد لوگوں سے ٹیکس لینے کے لیے 130ملین پر موبائل ٹیکس کیسے لاگو ہوسکتا ہی۔ سپریم کورٹ نے موبائل کارڈز پر سروس چارجز ود ہولڈنگ ٹیکس اور ایکسائز ڈیوٹی کو معطل کر تے ہوئے کہا کہ موبائل فون کارڈز پر ٹیکس وصولی سے متعلق ایک جامع پالیسی بنائی جائے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ اس فیصلے پر عمل در آمد پرسوں رات 12بجے کے بعد سے کیا جائے گا۔اس پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار عدنان عادل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے تو عید سے پہلے ہی عید ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے تو حکم جاری کر دیا ہے لیکن حکومت کو بھی اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانا چاہئیے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آ جاتا ہے لیکن بعد میں اکثر ان فیصلوں پر تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔

اگر اس پر عملدرآمد ہو گیا تو یقینی طور پرعوام کو ریلیف ملے گا کیونکہ یہ ٹیکس ان لوگوں پر بھی عائد کیا جا رہا تھا جن کی آمدن کم ہے اور جو اس ٹیکس کے زمرے میں آتے ہی نہیں ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس خبر سے عوام میں خوشی کی لہر دوڑے گی لیکن تاحال موبائل کمپنیوں کی جانب سے ٹیکس معطل نہیں کیے گئے۔