زرداری اور فریال سمیت متعدد رہنمائوں کے اقاموں سے متعلق درخواستوں کی سماعت

پہلے تمام فریقین کا جواب آنے دیں پھر سب کو تفصیل سے سنیں گے،جسٹس محمد علی مظہر پانچوں درخواستوں پر وفاقی وصوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن نے بھی مہلت مانگ لی

منگل 12 جون 2018 21:10

زرداری اور فریال سمیت متعدد رہنمائوں کے اقاموں سے متعلق درخواستوں ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 جون2018ء) سندھ ہائیکورٹ میں پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کے صدر آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور، سابق صوبائی وزراء ناصر حسین شاہ، منظور وسان، سہیل انور سیال، سردار نواب غیبی چانڈیو کے اقامے سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔سابق صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ اور سردار غیبی نواب چانڈیو کے وکیل نے جواب جمع کرادیاجمع کرائے گئے جواب میں ناصر حسین شاہ کے وکیل نے موقف اپنایاہے کہ ناصر حسین نے شاہ نے 2012 میں اقامہ ترک کردیا تھا، ناصر حسین شاہ عام انتخابات میں بھی امیدوار ہیں اس لیے کیس کو فوری سنا جائے۔

جبکہ اس موقع پر سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہرنے ریمارکس دئے کہ پہلے تمام فریقین کا جواب آنے دیں پھر سب کو تفصیل سے سنیں گے، جبکہ نواب غیبی کے خلاف درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ نواب غیبی نے اپنے کاغذات نامزدگی میں اقامہ کو چھپایا، جس پر نواب غیبی کے وکیل نے عدالت کا بتایا کہ نواب غیبی اب رکن اسمبلی نہیں رہے درخواست قابل سماعت نہیں ، اگر کسی رکن اسمبلی کے خلاف کوئی شکایت ہے تو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنا چاہیے،فریال تالپور کے خلاف درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ فریال تالپور نے 2002میں صاحبزادی عائشہ کے نام پر دبئی میں کمپنی قائم کی، فریال تالپور نے رقم دبئی منتقل کرنے کی تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپائی ، جیالی رہنما نے اپنا اقامہ بھی ظاہر نہیں کیا ،جھوٹا بیان حلفی جمع کرانے پر فریال تالپور صادق اور امین نہیں رہیں، فریال تالپور کو اسمبلی کی رکنیت کیلئے نااہل قرار دے کر مقدمہ درج کیا جائے ، اس موقع پر فریال تالپور، سہیل انور سیال اور منظور وسان کے وکلا نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی،فریال تالپور کے وکیل۔

(جاری ہے)

نے عدالت۔میں۔موقف اپنایا کہ عدالت کا نوٹس نہیں ملا اس لیے جواب جمع کرانے کے لیے وقت دیا جائے، پانچوں درخواستوں پر وفاقی وصوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن نے بھی مہلت مانگ لی۔جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو 25 جولائی تک مفصل جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے ہدیت کی کہ وکلا سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں بحث کی تیاری کرکے آئیں ،#