نگراں وزیراعلیٰ سندھ فضل الرحمان کی زیر صدارت پولیو پروگرام کی کارکردگی کا جائزہ اجلاس

تمام اسٹیک ہولڈرز ، پارٹنر اور سول سوسائٹی کو مل کر پاکستان کو پولیو فری زون بنانا ہے، نگران وزیر اعلی فضل الرحمن کا اجلاس سے خطاب

پیر 11 جون 2018 20:42

نگراں وزیراعلیٰ سندھ فضل الرحمان کی زیر صدارت پولیو پروگرام کی کارکردگی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 11 جون2018ء) گذشتہ ایک سال کے دوران صوبہ سندھ میں کوئی بھی پولیو کا کیس سامنے نہیں آیا ہے حالانکہ کراچی اور ضلع قمبر۔ شہداد کوٹ ہائی رسک علاقے تھے۔ یہ بات پیر کو وزیراعلیٰ ہائوس میں نگراں وزیراعلیٰ سندھ فضل الرحمان کی زیر صدارت پولیو پروگرام کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ اجلاس میں بتائی گئی۔

اجلاس میں صوبائی کوآرڈینیٹر پی او سی سی شہناز وزیر علی،وزیر اعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری سہیل راجپوت،سیکریٹری صحت فضل پیچوہو، صوبائی کوآرڈینیٹر ایمرجنسی آپریشن سینٹر(ای او سی)اور انٹرنیشنل پولیو پلس کمیٹی روٹری انٹرنیشنل کے فیاض جتوئی اور عزیز میمن نے شرکت کی۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ تمام پولیو کی سرگرمیوں کو نیشنل ایمرجنسی ایکشن پلان (این ای اے پی) کے تحت گائیڈ کیا جاتا ہے پاکستان اور افغانستان ہی صرف دو ممالک ہیں جہاں پر پولیو ہے۔

(جاری ہے)

2018میں اب تک پاکستان میں تین کیس رپورٹ ہوئی( جو کہ تمام بلوچستان کے ضلع دٴْکّی کے تھی) اور افغانستان میں 8 کیسز سامنے آئے۔ سندھ میں گذشتہ ایک سال کے عرصے میں کوئی بھی پولیو کا کیس سامنے نہیں آیا ہے جبکہ اس سے پہلے گذشتہ سال پولیو کے دو کیسز رپورٹ ہوئے تھے اور دونوں کراچی گلشن اقبال اور گڈاپ سے تھے۔ماحولیاتی سائٹس سے لیے گئے وائرس (سیوریج سسٹم سے لیے گئی) کے تحت وائرس کی نشاندہی ہوئی۔

کراچی میں ہر ماہ 11 مقامات سے سیمپل لیے جاتے ہیں۔ مئی میں صرف مچھر کالونی اور گڈاپ میں نتیجہ مثبت آیا۔شمالی سندھ میں 6 مقامات سے سیمپل لیے گئے اورضلع قمبر میں نتیجہ مثبت آیا۔اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ صورتحال کو نارمل نہیں کہا جاسکتا ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز ، پارٹنر اور سول سوسائٹی کو مل کر پاکستان کو پولیو فری زون بنانا ہے۔

نگراں وزیر اعلیٰ سندھ کو پولیو پروگرام کے حوالے سے ڈاریکشن اور فراہم کردہ اسٹریکچر کے حوالے سے بتایا گیا۔صوبائی ٹاسک فورس جس کی قیادت وزیر اعلیٰ یا چیف سیکریٹری کرتے ہیں ان کا سہ ماہی اجلاس ہوتا ہے جبکہ اس کے اراکین میں محکمہ صحت اور تعلیم کے سیکریٹری تمام کمشنرز، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پارٹنر ایجنسیز کے صوبائی سربراہان شامل ہوتے ہیں۔

ڈویژنل ٹاسک فور س جس کی سربراہی کمشنر کرتے ہیں وہ تمام 6 ڈویژن میں آپریٹ ہے۔ اس کے اراکین میں ڈی سیز،ڈی ایچ اوز/ ٹی ایچ اوز اور ان کی ضلعی ٹیمیں شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ پولیو ایر یڈیکیشن کمیٹیز(ڈی پی ای سی) تمام 29 اضلاع میں تشکیل دی گئی ہیں جس کی قیادت ڈپٹی کمشنر کرتے ہیں۔ ڈی پی ای سیز کے ساتھ ڈسٹرکٹ پولیو کنٹرول روم تعاون کرتے ہیں جوکہ اضلاع میں پولیو سے متعلق تمام سرگرمیوں کے حوالے سے روزمرہ کے امور کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں اور یہ پورا مہینے کام کرتے ہیں۔

پروونشل ایمرجنسی آپریشن سینٹر (ای او سی) صوبائی سطح پر ایک ٹیکنکل لیڈ ہوتی ہے اور یہ جو کہ حکومت ، شراکت داروں اور وفاقی سطح (نیشنل ای او سی) کے مابین تمام سرگرمیوں کے حوالے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ کراچی میں ایپی ڈیمیو لوجیکل صورتحال بہتر ہوئی ہے، ماحولیاتی سائٹ میں وائرس صرف گڈاپ تک محدود ہے۔ پولیو مہم کا معیار بہتر ہوا ہے، خاتمے کی سطح ابھی تک پوری طرح سے حاصل نہیں ہوسکی ہے اس کی وجہ بہت سے بچوں کو قطرے پلانے سے انکار بھی ہے۔

زیریں سندھ (بدین، ٹھٹھہ، سجاول) میں ائوٹ بریک کے بعد ستمبر۔ دسمبر2016 میں ان اضلاع میں خاطر خواہ ان پٹ (انسانی وسائل ، مانیٹرنگ ، نگرانی، جوابدہی) حاصل ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ کارکردگی کے معیار میں بھی بہتری آئی۔ شمالی سندھ میں تمام پولیو کے خاتمے کی سرگرمیوں کو ڈی پی سی آرز نے بہتر طریقے سے ڈی سی /ڈی ایچ او کی مشترکہ قیادت میں مینیج کیا ہے۔

سندھ میں روٹین کی امیونائزیشن کمزور ہے اور ابھی بھی کتنے ہی نوجوان بچے پولیو کے خلاف مدافعت کے بغیر ہیں۔ ای پی آئی پروگرام کے ساتھ مل کر صورتحال کو بہتر بنانے کے لییبڑے پیمانے پر کوششیں کی گئی ہیں اس وقت کراچی میں خسرہ کے حوالے سے ایک بڑے پیمانے پر مہم چلائی جارہی ہے جو کہ ای او سی اور ای پی آئی مل کر چلا رہے ہیں ( اور جسے بعد میں سندھ کے دیگر اضلاع تک توسیع دی جائے گی)۔

فیاض جتوئی نے چیلنجز پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کراچی میں وائر س کی ٹرانسمیشن کو روکنے کے لیے پولیو سرگرمیوں کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے بالخصوص شہر کے منتخب ہائی رسک علاقوں میں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں قطرے نہ پینے والے بچوں کی تعداد کو ہر مہم کے بعد کم سے کم کرنا ہے اور ایسے بچوں پر خصوصی توجہ دینے کے حوالے سے خاص حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی رسک موبائل پاپولیشن(ایچ آر ایم پی) کوئٹہ، کے پی اور فاٹا سے کراچی اور سندھ کے دیگر حصوں میں بڑھتی ہوئی نقل و حرکت بھی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ نے پرنسپل سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ 2 جولائی 2018 کو صوبائی ٹاسک فورس کا اجلاس طلب کریں تاکہ اس حوالے سے حکمت عملی وضع کی جاسکے۔