فیصل آباد اور راولپنڈی چیمبر آف سمال ٹریڈر اینڈ سمال انڈسٹری کی چیف جسٹس سے ایس ایم ایز سیکٹر کو تحفظ دینے کیلئے اپنی گزارشات پر عمل کروانے کی اپیل

جمعہ 8 جون 2018 23:25

فیصل آباد اور راولپنڈی چیمبر آف سمال ٹریڈر اینڈ سمال انڈسٹری کی چیف ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 08 جون2018ء) فیصل آباد چیمبر آف سمال ٹریڈر اینڈ سمال انڈسٹری کے صدر ظفر اقبال اور راولپنڈی چیمبر آف سمال ٹریڈر اینڈ سمال انڈسٹریز کے صدر ندیم شیخ، اسلام آباد چمبر آف سمال ٹریڈراینڈ سمال انڈسٹریزقاضی الیاس، گلگت چمبر آف سمال ٹریڈراینڈ سمال انڈسٹریزقربان علی اور وائس چیئرمین ایس، ایم ای کو نسل سارک چمبر آف کامرس سجادسرورنے جمعہ کو نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار ایس ایم ایز سیکٹر کو تحفظ دینے کے لئے ہماری گزارشات پر عمل کروائیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثارسے گزار ش ہے کہ ایف بی آرکی طرف سے ایس ایم ایز سے وابسطہ پانچ سال سے زائد پرانے کیسوں کی چھان بین کروائی جائے اور ای فلنگ کی صور ت میں چھ ماہ کے اندر اندر جو بھی ایشو سامنے آئے تو اس کو بروقت ختم کروایا جائے۔

(جاری ہے)

اگر ٹیکس گزارنے کے ذمہ کوئی ریکوری وجو د میں آئے تو اس کو بروقت وصول کر لیا جائے۔موجودہ ٹیکس گزاروں پر بوجھ کم کیا جائے اور ان کے لئے مراعات کا اعلان کیا جائے۔

جو کہ متعلقہ افسران کے ساتھ مل کر عمل میں لائی جاسکتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے ایس ایم ایز کے لئے گا ہے بگاہے پالیساں بنائی جاتی ہیں۔ مگر کمرشل بینکوں کی طرف سے عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ پالیساں ناکام ہوجاتی ہیں۔سٹیٹ بینک آف پاکستان نے کمرشل بینکوں کو اپنے ساتھ ساتھ کھاتہ داروں کے سرپر بھی مسلط کر رکھا ہے۔

کمرشل بینکوں بلادستی کی مثال ہے کہ ایس بی پی کی طرف سے نئی ایس ایم ایز پالیسی میں 2فیصد مارک اپ کی شرح سے فنڈنگ کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ کمرشل بینکوں کو ان فنڈ ز کو متعلقہ کھاتہ داروں کو مستفید کروانے کے عوض 4فیصد وصول کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جو کہ غیر منطقی عمل ہے۔ہماری استدعا ہے کہ اس کو بھی 2فیصد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی طر ف سے ثالثی کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ کمرشل بینکوں اور کھاتہ داروں کے درمیاں ثالثی کے ذریعے مسائل کو حل کیا جاسکے۔

اور عدلیہ پر بے جا بوجھ کو کم کیا جاسکے۔کمر شل بینکوں کی طرف سے شوکت عزیز سابق وزیر اعظم کی ملی بھگت سے ناجائز منافع حاصل کیا جاتا رہا ہے۔ کائیبر اور سپریڈ کی آڑ میں SME's کے لئے جاری قرضہ جات پر تقریبا20فیصد کے حساب سے منافع وصول کیا جاتا رہا۔ جس کی وجہ سے بہت سے کھاتہ دار یہ بوجھ برداشت نہ کرسکے اور ڈیفالٹر کی لسٹ میں شامل ہوگے۔ٹیکسٹائل بحران بجلی وگیس بحران نے چھوٹے کاروباری افراد کو تباہ کرکے رکھ دیا۔

تاجر راہنماں نے کہا کہ ہماری تجویز ہے کہ ایسے کاروباری کھاتہ دار جنہوں نے بینکوں سے لئے گئے قرض کی رقم کے 50فیصد رقم بطور سود بینک کو ادا کردی ہوئی ہے۔ ان کو پرنسپل رقم بینکوں کو واپس کرنے کی اجاز ت دی جائے اور مزید مارک اپ /سودسے مشتشنی قرار دیتے ہوئے فوری طور پر CBIرپورٹ کو کلیئر قراردینے کا حکم جاری کیا جائے تاکہ چھوٹے کاروباری افراد اپنے کاروبار بہتر طریقے سے سرانجام دے سکیں اور ٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ ہوسکے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کہ فوری طور پر فیصل آباد، جھنگ، حیدر آباد، کوئٹہ اور پشاور میں سمال انڈسٹریل اسٹیٹس کا قیام عمل میں لایا جائے اور ان میں بنیادی سہولتیں فراہم کر کے چھوٹے فیکٹری مالکان کو موقع فراہم کیا جائے تاکہ وہ نئی انڈسٹری لگا سکیں۔ اس میں بے روزگاری میں واضح کمی واقع ہوسکے گی اور ٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ ہوگا۔ نئے ٹیکس گزاروں کے لئے سمال ٹریڈرز کے ساتھ مل کر کام کیا جائے تا کہ ملک کے اندر ٹیکس گزاروں کی تعداد کو 50لاکھ سے زائد کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ چیمبر آف سمال ٹریڈرز کے نمائندوں کو مختلف سرکاری اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹر میں نمائندگی دی جائے۔ تاکہ ہم بھی اپنا کردار ادا کرسکیں۔