حلقہ بندیوں میں الیکشن کمیشن نے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کی ،پشتون قوم کو محدود کرنے کی کوششیں ناقابل قبول ہیں،محمود خان اچکزئی

حلقہ بندیوں کیخلاف عدالت سے رجوع کریں گے سیاسی جمہوری لوگ ہیں، انتخابات میں حصہ لیں گے ،سیاست میں دوستیاں اوردشمنیاں مستقل نہیں ہوتی ہیں ،آج بھی ہم نواز شریف کا ساتھ اصولی بنیادوں پر دے رہے ہیں ،بلوچستان میں نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب پردکھ ہوا ہے اس عہدے کیلئے صوبے میں بڑے بڑے نا م موجود تھے،چیئرمین پشتونخواملی عوامی پارٹی کی پریس کانفرنس سے خطاب

جمعہ 8 جون 2018 18:01

حلقہ بندیوں میں الیکشن کمیشن نے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کی ،پشتون ..
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 جون2018ء) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے کوئٹہ میں حلقہ بندیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حلقہ بندیوں میں الیکشن کمیشن نے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے پشتون قوم کو محدود کرنے کی کوششیں ناقابل قبول ہیں حلقہ بندیوں کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے سیاسی جمہوری لوگ ہیں انتخابات میں حصہ لیں گے میاں نواز شریف کا ساتھ اصولوں کی بنیاد پر دے رہے ہیں۔

یہ بات انہوں نے جمعہ کو کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی ،اس موقع پر پارٹی کے صوبائی صدر سینیٹر عثمان خان کاکڑ،سابق صوبائی وزیرعبدالرحیم زیارتوال،سردار رضامحمد بڑیچ،سابق سینیٹر رضامحمد رضا،فضل قادر شیرانی ،عبدالروف لالہ ،میئر کوئٹہ ڈاکٹرکلیم اللہ خان،عبیداللہ بابت،سید لیاقت آغا،نصراللہ زیرے،یوسف کاکڑ،قہارودان اورمجید خان اچکزئی،جلیل دوتانی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ جب سے یہ صوبہ بنا ہے تب سے یہ کوششیں ہوتی رہی ہیں کہ پشتونوں کی واضح اکثریت کو کم ظاہر کیا جائے ضلع پشین کی تشکیل بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی کہ پشتون علاقوں کو کوئٹہ سے دور رکھا جائے لوکل گورنمنٹ کی حلقہ بندیاںبھی ایسے کی گئیں جس میں ہمارے حلقے 30سے 40ہزار افراد پر مشتمل تھے جبکہ شہر میں ایسے بھی حلقے بنائے گئے جن کی آبادی 7ہزار افراد پر مشتمل تھی ہم روز او ل سے کہتے آرہے ہیں کہ یہ طریقہ کار درست نہیں ماضی میں کوئٹہ کی قومی اسمبلی کی نشست کے ساتھ چاغی ،نوشکی کے ساتھ ایران بارڈر تک کے علاقے شامل تھے تاکہ کوئٹہ کی صحیح نمائندگی نہ ہوسکے ساڑھے سات سو کلومیٹر طویل علاقے کی نمائندگی بہت مشکل کام تھا ۔

انہوں نے کہا کہ اب بھی نئی حلقہ بندیوں میں پشتون علاقوں میں سات ایسے حلقے ہیں جن کی آبادی 3لاکھ سے بھی زیادہ ہے جبکہ دوسری جانب صوبے میں 2لاکھ سے کم آبادی والے حلقے بھی بنائے گئے ہیں موسیٰ خیل اور شیرانی کو ملاکر صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بنادی گئی ہے جبکہ قومی اسمبلی کی نشست میں دونوں ضلعوں کو الگ الگ حلقوں میں شامل کیا گیاہے جس پر عوا م،سیاسی جماعتوں نے ہڑتال بھی کی موسیٰ خیل کے عوام اور سیاسی جماعتوں نے اسلام آبادہائی کورٹ سے اس بارے میں رجوع کیا کوئٹہ کی حلقہ بندیوں کے خلاف بھی عدالت سے رجوع کیا گیاکوئٹہ کے 9حلقوں میں الیکشن کمیشن نے اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے اور کوئٹہ میں پشتون آبادیوں کو متاثر کرنے والی حلقہ بندیاںبنائی گئی ہیں یہ حلقے نہ ت زک زیک اور نہ تو نارتھ سے ساؤتھ بنائے گئے ہیں بلکہ بعض حلقے ایل کی شکل میں بنائے گئے ہیں کہیں حلقوں کو توڑاگیا ہے تو کہیں انکو برقرار رکھا گیا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کی جانب سے حلقہ بندیوں سے متعلق واضح ہدایت کے باوجود عملدرآمد نہیںہورہا ۔انہوں نے کہا کہ پارٹی کے سابق ڈپٹی چیئرمین مرحوم عبدالرحیم مندوخیل نے بھی حلقہ بندیوں سے متعلق تادم مرگ بھوک ہڑتال کی تھی ہم نے ہمیشہ یونین کونسل سے لیکرہرسطح پر غیرمنصفانہ حلقہ بندیوں کے خلاف آواز بلند کی ۔انہوں نے کہا کہ اب کچھ لوگ سبی کے حوالے سے باتیں کر رہے ہیں سبی کی اپنی تاریخ ہے جب ہم تاریخ کی بات کرتے ہیں تو ہم پرالزامات لگائے جاتے ہیں۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ انگریزوں کی آمد سے قبل سبی کامطلب صرف سبی نہیں تھابلکہ اس میں بارکھان ،سنجاوی ،ہرنائی ،تھل چوٹلیائی سمیت دیگر علاقے بھی شامل تھے لارڈ سنڈیمن نے یہاں آکرچیف کمشنر صوبہ بنایا تھاجس میں ہمارے علاقوں سمیت مری،بگٹی ،چاغی ،نوشکی کے بھی کچھ علاقے شامل تھے ۔انہوں نے کہاکہ قلات ،خاران ،لسبیلہ ،مکران ڈویژن پرمشتمل بلوچ ریاست تھی جسے سب قبول کرتے تھے 1970ء میں تمام علاقوں کو ملادیا گیا جب1970ء کے الیکشن کے بعدخان آف قلات گورنربنے توانہیںصورتحال کا ادراک تھا اس لئے انہوں نے ایک آرڈیننس جاری کیا کہ 50فیصد بلوچ ،40فیصد پشتون اور 10فیصدآبادکار ہیں مگر اب تو دیدہ دلیری سے پشتون وطن کو برباد کیا جارہا ہے پشتون کی آبادی کو کم ظاہر کیا جارہا ہے ہائیکورٹ کے احکامات کے باوجود الیکشن کمیشن توہین عدالت کرتے ہوئے عدالت کے فیصلے پر عمل نہیں کررہا ہم ہر قسم کے غیر جمہوری اقدام کی مخالفت کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ انتخابات کاشفاف انعقادہو اور جوبھی کامیاب ہو ہم اسے نہ صرف تسلیم کریں گے بلکہ مبارکباد بھی دیں گے اگر کوئی غیر جمہوری عمل ہوگا تو کم سے کم ہم اس پر خاموش نہیں رہیں گے ہم کسی غیر جمہوری عمل یا اقدام میں شامل نہیں رہے ہماری جماعت سے کچھ لوگ انگریزکے دور سے لیکر آج تک ناراض ہے یہ بات ریکارڈپرہے کہ ہم نے ایک دن بھی پاکستان مردہ باد نہیں کہا اور نہ ہی کبھی یہ کہا کہ ہم اس ملک میں نہیں رہیں گے بلکہ ہم نے تو ون مین ون ووٹ کے لئے جدوجہد کی جس کی پاداش میں ہمارے رہنماوں کی زندگیوں کے کئی سال جیلوں میں گزرے ۔

انہوں نے کہا کہ میرے حوالے سے کچھ عرصے سے مختلف باتیں کی جارہی ہیں کبھی منظورپشتون اور اسکی موومنٹ کی حمایت کی بات کی جاتی ہے حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے قومی اسمبلی کے فلور پر 1996ء میں اسوقت رکھی تھیں جب منظورپشتون اور علی وزیر کی عمریں بمشکل 5اور10سال ہونگی علی وزیرکے بھائی اور والد سمیت خاندان کے 16افراد جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں میں نے 22سال پہلے کہا تھا کہ جس طرح سے معاملات کو چلایا جارہا ہے یہ ٹھیک نہیں ہم ایمانداری سے کہتے ہیں کہ پاکستان آئینی ،جمہوری فیڈریشن ہو جس میں سب برابر ہوں ملک میں ایک حکمرانی کے اندر تمام قومیتوں کے ساتھ یکساںرویہ رکھا جائے ایک آئینی جمہوری اور شفاف فیڈریشن پر نواز شریف کا ساتھ دیا جس پر ہمیں اورنوازشریف دونوں کو گالیاں دی جارہی ہیں اسوقت کوئی مانے یا نہ مانے نواز شریف ملک کے سب سے مقبول رہنما ہیں جو ملک کو بچاسکتے ہیں میرانظریہ ہے کہ پاکستان میں سب برابر ہوں کسی کو رنگ،نسل،قومیت،مذہب سمیت کسی بنیاد پر تختہ مشق نہ بنایا جائے تعلیم ،صحت،جمہوریت سب کیلئے ہو بدقسمتی سے یہاں ہمیشہ لیڈر بنانے کی کوششیں کی جاتی رہیں مگر یاد رکھیں کہ لیڈرایجادنہیں ہوتے مفاد پرست ہرمشکل میں حکمرانوں کا ساتھ چھوڑ کرمحفوظ اور زیادہ آسائش والے آشیانے ڈھونڈتے رہے ہیں جس کا تجربہ اب بھی ہمارے صوبے میں ہورہا ہے ۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے ابتک پارٹی نے کوئی فیصلہ نہیں کیا لیکن کم از کم احتجاج ضرور کررہے ہیں عدالت میں بھی گئے ہیں اور میری ذاتی رائے ہے کہ اگر ہمیں مجبورکیا گیا تو ہم کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے ہم عدالت اورالیکشن کمیشن سمیت سب کا احترام کرتے ہیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جب حلقہ بندیوں سے متعلق ہمارے کیس کی سماعت ہورہی تھی تو وہ بینچ تین ججوں پر مشتمل تھا مگر اچانک ایک چوتھے جج بھی آگئے اور ہماراموقف سننے کی بجائے انہوں نے کہا کہ اس پر کل موقف سنایا جائے گا میں نے چیف الیکشن کمشنر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی نہ ہونے پرانکے سیکرٹری سے بات کی اوران سے کہا کہ سرداررضا خان چیف الیکشن کمشنر تک میرا یہ پیغام پہنچادیں کہ ہمارے نمائندے حلقہ بندیوں سے متعلق اسلام آباد میں موجود ہیں انکی بات سن لیں مگر ایسا نہ ہوسکا۔

انہوں نے کہا کہ جب گوہر ایوب قومی اسمبلی کے اسپیکر تھے اور میں نے بحیثیت رکن قومی اسمبلی حلف لیا تھاتو میں نے ان سے کہاتھا کہ ہم نے جو حلف لیا ہے یہ بہت اہم ہے جو ہم نے حلف اٹھایا ہے اس پر ہمیں عمل کرنا ہوگا ورنہ باتوں کی حد تک کچھ نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جج ،جرنیل اور ہرسطح کے عوامی نمائندے حلف اٹھاتے ہیں فوجی یہ حلف لیتے ہیں کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے کیا آیا ایسا ہورہا ہے ۔

انہوں نے اس موقع پر چارٹوں کے ذریعے صحافیوں کو کوئٹہ کی حلقہ بندیوں سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ان پرتحفظات ہیں حلقہ بندیوں میں پشتون تقسیم ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اتنے اہم مسائل اور انتخابات قریب ہیں مگراب اچانک ایک بار پھر پانی اورڈیمز کا مسئلہ اٹھادیا گیا ہے پانی پر سب سے زیادہ تحفظات تو ہمارے ہیں 1991ء کے پانی کے معاہدے کو ہم نے نہیں مانا تھا کیونکہ پانی کے مسئلے سے پشتون سب سے زیادہ دوچار ہیں خیرآباد کے پل سے پاکستان کا لاکھوںایکڑ فٹ پانی ملک میں داخل ہوتا ہے 200میل پشتون علاقوں سے گزر کر ملک کے مختلف علاقوں کو سیراب کرتا ہے مگر جس علاقے سے یہ دریاگزرتا ہے وہاں پشتون اللہ تعالیٰ سے بارشوں کی دعائیں کرتے ہیں پوری دنیا میںکہیں ایسا نہیں ہوتا کہ دریا کے آس پاس کے علاقے ویران اور بنجر ہوں اس طرح معاملات نہیں چلتے پشتون ،بلوچ ،سندھی کے حقوق اوروسائل پر انکا حق تسلیم کرنا ہوگا اسکے برعکس کچھ قبول نہیں کریں گے یہ کہاںکا انصاف ہے کہ جو صحیح بات ہو اسکو برا سمجھا جائے اوروفاداریاں بدلنے والوں کو اچھا سمجھا جائے ہم بکاؤ مال نہیں اور نہ ہی ملک کو بکاو مال سے چلایا جاسکتا ہے ہم الیکشن کمیشن سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ناجائز سپورٹ نہیں چاہئے بلکہ صرف قوانین کے تحت حلقہ بندیاں کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کا قانون ،آئین اور دنیا کے تمام قوانین پرامن سیاسی اجتماعات کی اجازت دیتے ہیں مگر کچھ دنوں قبل پشتون تحفظ موومنٹ کے پریس کلب کے اجتماع میں جو کچھ ہوا وہ ناقابل قبول ہے اگر احتجاج پرتشدد ہو تو کارروائی ریاست کا حق ہے مگر پرامن احتجاج پر تشدد کی اجازت نہیں دے سکتے قوموں کے وسائل پر انکا حق تسلیم کرناہوگا طاقت کا سرچشمہ عوام اورتمام فیصلے پارلیمنٹ سے ہونے چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اصولی سیاست کی جس دور میں آئی جے آئی بنی تھی تو تمام لوگ اس میں شامل تھے ہم اس میں شامل نہیں ہوئے بلکہ جب نواز شریف یہاں آئے تو ہم نے اصولوں کی بنیاد پر کالی جھنڈیوں سے انکا استقبال کیاتھااوریہ موقف اختیارکیا تھاکہ محترمہ بے نظیربھٹو جمہوری انداز سے منتخب ہوئی ہیں انہیں حکومت کرنے کا آئینی حق حاصل ہے سیاست میں دوستیاں اوردشمنیاں مستقل نہیں ہوتی ہیں آج بھی ہم نواز شریف کا ساتھ اصولی بنیادوں پر دے رہے ہیں ۔

انہوں نے ملک میں گرنیڈ سیاسی ڈائیلاگ کی ضرورت پر زوردیتے ہوئے کہاکہ مل بیٹھ کر بات چیت سے ہی تمام مسائل کا حل ممکن ہے ۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ دنوں سے بعض چینلوں پر میری بھارتی وزیراعظم نریندرمودی اوردیگر لوگوں سے بات چیت کے حوالے سے پروپیگنڈہ کیا جارہاہے اگرمیری نریندر مودی سے ملاقات ہوئی تو اسے بالکل نہیں چھپاؤں گا ۔ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب پردکھ ہوا ہے اس عہدے کیلئے صوبے میں بڑے بڑے نا م موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کیلئے جہانگیر اشرف قاضی کا نام ان سے پوچھے بغیر ہی دیا تھا وہ مختلف ملکوں میں پاکستان کے سفیر رہے چکے ہیں وہ وزیراعظم کے عہدے کے بھی اہل تھے انکاخاندان مسلم لیگی اور قائداعظم محمد علی جناح کے انتہائی قریب تھا اسکے باوجود انہیں نظر انداز کیا گیا حالانکہ امید تھی کہ الیکشن کمیشن انکا انتخاب کریگا۔