Live Updates

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لیے سالانہ 54 ارب ڈالر کی ضرورت ہے-مشاہداللہ خان

وزیر اعظم کے گرین پاکستان پروگرام کے تحت10 کروڑ درخت لگائے گئے -برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویو

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 29 مئی 2018 12:08

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے کے لیے سالانہ 54 ارب ڈالر کی ضرورت ہے-مشاہداللہ ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔29 مئی۔2018ء) موسمیاتی تبدیلی کے وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کم کرنے اور اس سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے سالانہ 54 ارب ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ صرف سی پیک منصوبے کی کل مالیت 36 ارب ڈالر ہے۔پاکستان کا شمار ان ترقی پذیر ممالک میں ہے جو خود کاربن کے اخراج سے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ نہیں بن رہے لیکن اس امر سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔

اس اثر کو کم کرنے کے لیے درکار اخراجات پورے کرنا بھی پاکستان جیسے ملک کے بس کی بات نہیں۔ مشاہد اللہ نے بین القوامی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی ایک عالمی نوعیت کا مسئلہ ہے اور پاکستان جیسے ملک کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے انھی امیر ممالک کی مالی مدد درکار ہے جو خود کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں۔

(جاری ہے)

موسمیاتی تبدیلی کی وزارت نے چین سے زیر زمین پانی کے ٹینک بنانے کے منصوبے کے لیے ابتدائی بات چیت کی ہے۔

اس تکنیک کے تحت سیلابی پانی کو محفوظ کر کے بوقت ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے۔مشاہد اللہ نے کہا کہ پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جنہوں نے موسمیاتی تبدیلی کے لیے الگ وزارت بنائی اور وفاقی بجٹ میں اس کے لیے 8 فیصد بجٹ کا مختص ہونا بھی بڑی بات ہے۔ ان کی وزارت کے ماحول کی بہتری کے لیے قابل ذکر عملی اقدام کے بارے میں سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے گرین پاکستان پروگرام کے تحت10 کروڑ درخت لگائے گئے جبکہ اسلام آباد میں گھر گھر شجر پروگرام کے تحت طلبا سے درخت لگوائے گئے۔

اس ضمن میں انھوں نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے بلین ٹری سونامی پروگرام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا میں ایک ارب 22 کروڑ درخت واقعی لگے ہوتے تو پشاور میں اس وقت برفباری ہو رہی ہوتی، اور اس پر وہ تحریک انصاف کو سیلوٹ کرتے۔کراچی میں 2015 کے بعد اس سال بھی گرمی کی شدید لہر کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 2015 میں ہلاکتوں کی تعداد ہزاروں میں تھی، اس سال بھی گرمی کی لہر سے نمٹنے کے لیے پیشگی اقدام دیکھنے میں نہیں آئے۔

اس حوالے سے سوال پر مشاہد اللہ نے کہا کہ ان کی وزارت کے تحت آگاہی مہم چلائی گئی اگرچہ یہ ان کی انتظامی ذمہ داریوں میں شامل بھی نہیں تھا۔گلیشیئر پگھلنے، سمندری سطح بڑھنے اور سیلابی صورتحال سے زرعی اراضی زیر آب آنے کا امکان پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔مشاہد اللہ نے کہا کہ دنیا میں موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تیزی سے کام ہوا ہے۔ پاکستان میں بھی رد عمل موجود ہے لیکن مزید کام کرنے کی ضرورت یقیناً ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات