لندن فلیٹس کی ادائیگی کیسے ہوئی اور ان ادائیگیوں میں کون ملوث تھا؟

ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط مریم نواز نے نہیں بلکہ کس نےکیے تھے ؟ نئے انکشافات سامنے آگئے

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 26 مئی 2018 12:07

لندن فلیٹس کی ادائیگی کیسے ہوئی اور ان ادائیگیوں میں کون ملوث تھا؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔26 مئی 2018ء) : نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے معروف صحافی محمد مالک نے کہا کہ دو اہم چیزیں جو مجھے پتہ چلی ہیں،انہوں نے کہاکہ ایک بہت ہی باوثوق ذریعے نے مجھے بتایا کہ ہارون پاشا،جو گروپ کے سی ای او بھی تھے ان سے متعلق نیب کے پا سبہت سے ثبوت تھے۔ اور نیب سے مراد چودھری قمر زمان والی نیب ہے جس کے پاس ہارون پاشا کے خلاف بہت سے ثبوت تھے۔

چودھری قمر زمان والی نیب نے لندن فلیٹس والے کیس کو بگاڑنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ہارون پاشا 1993ء میں فلیٹ نمبر 17 اور 1995ء میں فلیٹ نمبر 16 خریدنے کے لیے سوئٹزرلینڈ گئے تھے،ذرائع نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہارون پاشا کے جو ریکارڈز ہیں اور پاسپورٹ پر سوئٹزر لیںڈ اور لندن کے جو وزٹس ہیں، ان کی تمام تر تفصیلات نیب کے پاس ہیں، اور وہ ساری تفصیلات ان تاریخوں کے ساتھ موافقت رکھتی ہیں جن تاریخوں میں ٹرانزیکشنز ہوئیں۔

(جاری ہے)

ذرائع کا کہنا ہے کہ ہارون پاشا کے خلاف کارروائی نہ ہونا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ میرے ذرائع نے بتایاکہ ہارون پاشا کو کہا گیا کہ آپ ملک سے دور رہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہارون پاشا اگست2017سے غائب ہیں۔مزید انکشاف یہ کیا گیا کہ نیب کے پُرانے چئیرمین کو یہ بھی علم تھا کہ ڈیڈ پر جو دستخط کیے گئے تھے وہ مریم نواز کے دستخط نہیں تھے بلکہ یہ دستخط ہارون پاشا نے کیے تھے اور ثبوت مانگنے پر مجھے ذرائع نے بتایا کہ نیب کے پاس وہ رپورٹس ہیں جن میں ان دستخطوں پر انٹرنیشنل ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ اور پاکستانی ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ کی رائے موجود ہے۔

کیا یہ کاغذات ہیں یا نہیں ہیں،ان نیب کو اس پر جواب دینا چاہئیے، اور مریم کے خلاف کیس کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا ، اسی لیے اس پر بھی بعد میں سپلیمنٹری ریفرنسز آئے تھے۔ جہاں تک ادائیگیوں کی بات ہے تو اس پر بھی سوالات اُٹھائے گئے کہ اگر ادائیگیاں ہوئیں تو یہ کون سا پیسہ تھا۔ محمد مالک نے کہا کہ اس سے قبل بھی میں نے اس معاملے پر ایک پروگرام کیا تھا جس میں بتایا تھا کہ جو پنڈی پشاور موٹروے تھی، نواز شریف کی پہلی حکومت میں یہ معاہدہ ترک کمپنی کو دیا گیا تھا جس کے بعد بے نظیر کی حکومت نے اس معاہدے کو منسوخ کر دیا۔

جب دوبارہ نواز شریف کی حکومت آئی تو اس معاہدے کو بحال کیا گیا،یہ 880 ملین ڈالر کا معاہدہ تھا،جس کی ادائیگی کی شرح 40 فیصد مقامی روپے میں اور 60 فیصد ڈالر میں تھا۔ لیکن اس شرح کو سوئچ کر دیا گیا، اور بغیر کسی وجہ کے 10 فیصد منتقل کر دیاگیا اور اس معاہدے میں 88 ملین کا خلا ڈال دیا گیا۔ اور اس گروپ کو فائدہ دے دیا گیا ۔ اور ڈالر کو اس وقت 46 روپے کچھ پیسوں کا تھا اس کو 26 روپے کے پُرانے ریٹ پر رکھا گیا۔

یہ پیسے کہاں ہیں؟ اس پر نیب کوئی کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ محمد مالک نے اپنے پروگرام میں سوال اٹھایا کہ چودھری قمر زمان والی نیب نے جو چیزیں چھپائی تھیں ان پر جسٹس (ر) جاوید اقبال والی نیب کیوں کوئی کارروائی نہیں کر رہی؟ کیا یہ سب جان بوجھ کر کیا گیا ہے؟ میں یہ سوالات اس لیے پوچھ رہا ہوں تاکہ یہ کنفیوژن ختم ہو سکے کہ آخر اس سب کے پیچھے کون ہے۔