اگر میں ملک کا صدر ہوتا تو شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کر دیتا

پاکستان امریکہ اختلافات بھُلا کر مذاکرات کرنے چاہئیں۔ سابق صدر پرویز مشرف

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 25 مئی 2018 12:50

اگر میں ملک کا صدر ہوتا تو شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کر دیتا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 25 مئی 2018ء) : پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا کہنا ہے کہ ہمیں پاکستان امریکہ اختلافات بھُلا کر مذاکرات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہاکہ اگر میں ملک کا صدر ہوتا تو کچھ لو ، کچھ دو کے تحت شکیل آفریدی کو آمریکہ کے حوالے کر دیتا۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کا زیادہ جھکاؤ بھارت کی طرف ہے جس سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اگر اگر میں ملک کا صدر ہوتا تو شکیل آفریدی کو رہا کروا کے انہیں امریکہ کے حوالے کرنے پر رضامند ہو جاتا، بشرطیکہ یہ سب کچھ لو اور کچھ دو کے تحت پوتا۔ انہوں نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کے تحت امریکہ کے ساتھ کوئی سمجھوتا طے پا جاتا۔

(جاری ہے)

امریکی ریڈیو وائس آف امریکہ کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں ایک وفادار ساتھی کی حیثیت سے امریکہ کا ساتھ دیا ہے، لیکن امریکہ نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ صرف اُسی وقت بڑھایا جب اسے پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی۔

اُنہوں نے کہا کہ امریکہ میں موجودہ انتظامیہ کے دور میں پاکستان امریکہ تعلقات خراب ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں اور اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دونوں ملک اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے مذاکرات کریں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کی وجہ افغانستان کی صورتحال ہے اور امریکہ کا یہ تاثر سراسر غلط ہے کہ پاکستان امریکہ کو افغانستان کے حوالے سے ڈبل کراس کر رہا ہے۔

پا کستان کو بھی امریکہ سے کچھ شکایات ہیں اور امریکہ کو یہ بات سمجھنی چاہئیے۔ پرویز مشرف نے مزید کہا کہ فی الوقت امریکہ کا مکمل جھکاؤ بھارت کی طرف ہوگیا ہے اور اس بات سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ بھارت افغانستان کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے اور یوں امریکہ کی طرف سے بھارت کی طرف مکمل جھکاؤ پر پاکستان میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے تاہم اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دونوں ملک مل بیٹھ کر مذاکرات کریں اور آپسی شکایات دور کر لیں۔