نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر ملک کے معتبر اداروں کو آڑے ہاتھوں لے لیا، اپنے اور اپنے خاندان کے اردگرد تمام ترمسائل کی جڑ کا ذمہ دار پرویز مشرف کو ٹھہرادیا ،جب ان کے گردن پر جمہوری حکومت نے قانون کے پنجے گاڑے تو اس وقت پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ افسران نے مجھے دھمکایا کہ اس پتھر کو نہ چھیڑو بصورت دیگر خود ملیامیٹ ہوجاؤ گے، نواز شریف

دھرنے کے دوران مجھے کہا گیا کہ یا طویل رخصت پر چلا جاؤں یا استعفیٰ دے دوں،مجھ پرالزام لگانے والے اپنے ارادوں میں کمی نہ کریں اور میں نے بھی قسم اٹھا رکھی ہے کہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا، سابق وزیراعظم آمریتوں نے گہرے زخم لگائے ہیں، میں مسلح افواج کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، فوج کی کمزوری ملکی دفاع کی کمزوری ہوتی ہے، قابل فخر ہیں وہ بہادر سپوت جو سرحدوں پر فرائض انجام دے رہے ہیں، سرحدوں پر ڈٹے ہوئے سپوت ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیتے ہیں ْ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ قوم کو وہ پاکستان دیا جو زندگی کے ہر شعبے میں 2013 کے پاکستان کے مقابلے میں زیادہ روشن مستحکم توانا تھا، یہ اس ملک کے دانشوروں اور مبصرین نے دیکھنا ہے کہ 28 جولائی کے فیصلے نے اس پاکستان اور عوام کو کیا دیا، معیشت، توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کتنا نقصان پہنچایا، پریس کانفرنس

بدھ 23 مئی 2018 19:59

نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر ملک کے معتبر اداروں کو آڑے ہاتھوں لے لیا، ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 23 مئی2018ء) پاکستان مسلم لیگ(ن) کے تاحیات قائد میاں محمد نوازشریف نے ایک مرتبہ پھر ملک کے معتبر اداروں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ میرے اور میرے خاندان کے اردگرد تمام تر مسائل کی جڑ سابق صدر پرویز مشرف ہیں،جب ان کے گردن پر جمہوری حکومت نے قانون کے پنجے گاڑے تو اس وقت پاک فوج اور سیکورٹی اداروں کے اعلیٰ افسران نے مجھے دھمکایا کہ اس پتھر کو نہ چھیڑو بصورت دیگر خود ملیامیٹ ہوجاؤ گے،علاوہ ازیں سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی مجھے پرویز مشرف کے تمام تر اقدامات کو قومی اسمبلی سے توثیق کرانے کا مشورہ دیا تھا لیکن میں نہیں مانا۔

دھرنے کے دوران مجھے کہا گیا کہ یا طویل رخصت پر چلا جاؤں یا استعفیٰ دے دوں،مجھ پرالزام لگانے والے اپنے ارادوں میں کمی نہ کریں اور میں نے بھی قسم اٹھا رکھی ہے کہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران کیا۔سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ جب مائنس ون کیاصول طے پاجائے تو اقامہ جیسا بہانہ ہی کافی ہوتا ہے۔

احتساب عدالت میں پیشی کے بعد پنجاب ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نوازریف نے کہا کہ آصف زرداری نے مصلحت سے کام لینے کا کہا زرداری صاحب میرے پاس ایک قومی لیڈر کیپاس آئے۔انہوں نیکہاکہ مشرف غداری کیس قائم کرتے ہی مشکلات اور دباو بڑھادیا گیا، مجھے دھمکی نما مشورہ دیا گیا کہ بھاری پتھر اٹھانے کا ارادہ ترک کردو، بذریعہ زرداری پیغام دیاکہ مشرف کیدوسریمارشل لائ کو پارلیمانی توثیق دی جائے، میں نے مشرف کے دوسرے مارشل لائ کو پارلیمانی توثیق دینے سے انکار کیا۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھاکہ آمریتوں نے گہرے زخم لگائے ہیں، میں مسلح افواج کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، فوج کی کمزوری ملکی دفاع کی کمزوری ہوتی ہے، قابل فخر ہیں وہ بہادر سپوت جو سرحدوں پر فرائض انجام دے رہے ہیں، سرحدوں پر ڈٹے ہوئے سپوت ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیتے ہیں۔میاں نوازشریف نیکہا کہ میں نے قوم کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا، اس وقت کے آرمی چیف اورحکام کوہدایت دی کہ17دن میں دھماکوں کی تیاری کریں، ایٹمی دھماکے نہ کرنے پرمجھے 5ارب ڈالرکا لالچ دیا گیا، آج بھی وہ ٹیپ دفتر خارجہ میں موجود ہوں گی، میں نے وہی کیا جو پاکستان کے وقار اور مفاد میں تھا، پاکستان کی عزت اربوں کھربوں سے زیادہ عزیز تھی، ایٹمی دھماکے نہ کیے جاتے تو بھارت کی عسکری بالادستی قائم ہوجاتی۔

انہوں نے کہا کہ آئین شکنی یا اقتدار پر قبضے کا فیصلہ ایک یا دو جرنیل کرتے ہیں اس کی لذتیں مٹھی بھر جرنیلوں کے حصے میں آتی ہیں لیکن اس کی قیمت پوری مسلح افواج کو ادا کرنا پڑتی ہے۔نوازشریف کا کہنا تھاکہ مشرف کیخلاف مقدمہ شروع ہوتے ہی اندازہ ہوگیا کہ آمر کو کٹہرے میں لانا کتنا مشکل ہوتاہے، سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں، جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتی ہے، جنوری2014 میں مشرف عدالت کے لیے نکلا توطے شدہ منصوبے کے تحت اسپتال پہنچ گیا، پرویز مشرف پراسرار بیماری کا بہانہ بناکر دور بیٹھا رہا، انصاف کیمنصب پر بیٹھیجج مشرف کو ایک گھنٹے کے لیے بھی جیل نہ بھجواسکے۔

سابق وزیراعظم نیکہا کہ ایسا کیوں ہوا میں وجہ بتانے سے قاصرہوں، 2014کے دھرنوں کا مقصد مجھے دباؤ میں لانا تھا، مجھ پرلشکرکشی کرکے پیغام دینا مقصود تھا کہ مشرف غداری کیس کو چلانا اتنا آسان نہیں ہے۔نوازشریف کا کہنا تھا کہ میرے راستیپر شرپسند عناصر بٹھادیے گئے، منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ میں دباو میں آجاؤں گا، کہا گیا وزیراعظم کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائیں گے، مقصدتھا مجھے پی ایم ہاؤس سینکال دیں، مشرف کے خلاف کارروائی آگے نہ بڑھے، پی ٹی وی، پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر فسادی عناصرسیکچھ محفوظ نہ رہا، امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، کون تھا وہ امپائر وہ جوکوئی بھی تھا اسکی پشت پناہی دھرنوں کو حاصل تھی۔

انہوں نے کہا کہ مجھے منصب اورپارٹی صدارت سے ہٹانے اور عمر بھر کیلیے نااہل رار دینا واحد حل سمجھ لیا گیا، طویل رخصت کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پرتھا کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹادیا گیا، پاناما میں عالمی لیڈرز کا نام بھی تھا،کتنے سربراہان کو معزول کیا گیا پاکستان میں یہ کارروائی جس شخص کے خلاف ہوئی اس کانام نواز شریف ہے، نواز شریف کا نام پاناما میں نہیں تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد نے کہا کہ گواہ میرے خلاف ادنیٰ ثبوت بھی پیش نہ کرسکے، عملاً میرے موقف کی تائید ہوئی، استغاثہ میرے خلاف کیس ثابت نہیں کرسکا، مجھے اپنے دفاع میں شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں، اب تک ریفرنسز کی حقیقت آپ پرکھل چکی ہوگی۔نوازشریف کا کہنا تھاکہ میں نے سرجھکا کرنوکری کرنے سے انکار کردیا، میں نے اپنے گھر کی خبر لینے اور حالات ٹھیک کرنے پر اصرار کیا، میں نے خارجہ پالیسی کوقومی مفاد کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی، مجھے ہائی جیکر کہیں، مجھے سسیلین مافیا کہیں، مجھے گاڈ فادر کہیں، مجھے غدار کہیں، فرق نہیں پڑتا، میں پاکستان کا بیٹا ہوں مجھے اس مٹی کا ایک ایک ذرہ پیارا ہے، میرے آباواجداد ہجرت کرکے یہاں آئے، میں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا اپنی توہین سمجھتاہوں۔

سابق وزیراعظم نیکہا کہ چونکہ پاکستان کے عوام مجھ سے محبت کرتے ہیں، مجھے ووٹ دیتے ہیں اور وزارت عظمیٰ کیمنصب پربٹھاتے ہیں اس لیے میں نامطلوب شخص قرار پایا، کبھی آئینی معیاد پوری نہیں کرنے دی گئی، سبق سکھانے کے لیے قید کیا گیا، کال کوٹھریوں میں ڈال دیا گیا، ہائی جیکر قرار دیکر عمر قید کی سزا دی گئی، خطرناک مجرموں کی طرح ہتھکڑی ڈال کر جہاز کی سیٹ سے باندھ دیا گیا، ہہر ممکن تذلیل کی گئی، ملک سے جلا وطن کیا گیا، جائیدادیں ضبط کی گئیں اور گھروں پر قبضہ جمالیاگیا، جب ساری پابندیوں توڑ کر واپس آیا تو ہوائی اڈے سے ہی ایک بر پھر ملک بدر کردیا گیا۔

نوازشریف کا کہنا تھاکہ کیا آج سے 19 سال قبل یہ سب کچھ پاناما کی وجہ سے ہورہا تھا، کیا میرے ساتھ یہ سلوک لندن فلیٹ کی وجہ سے کیا جارہا تھا، نہیں جناب والا، 19، 20 سال پہلے بھی قصور وہی تھا جو آج ہے، نہ اس وقت کسی پاناما کا وجود تھا نہ آج کسی پاناما کا وجود ہے، اس وقت بھی میں عوام کی حاکمیت اور حقیقی جمہوریت کی بات کررہا تھا اور آج بھی یہی کہہ رہاہوں، اس وقت بھی کہا تھا کہ داخلی و خارجی پالیسیوں کی باگ ڈور متنخب عوام کے ہاتھ میں ہونی چاہیے، آج بھی کہتا ہوں فیصلے وہی کریں جنہیں عوام نے فیصلے کا اختیار دیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے دفاع میں شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں، میں نے اپنے اقتدار اور ذات کو خطرے میں ڈالا کہ ڈکٹیٹر کو اپنے کیے کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ ہے میرے اصل جرائم کا خلاصہ، اس طرح کے جرائم اور مجرم پاکستانی تاریخ میں جابجا ملیں گے، کاش آج آپ یہاں لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح کوطلب کرسکتے،ان سے پوچھ سکتے کہ آپ کیساتھ کیا ہوا، کاش آپ سینئر ججز کو بلاکر پوچھ سکتے کہ وہ کیوں ہرمارشل لائ کو خوش آمدید کہتے رہے، کاش آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلاکر پوچھ سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا ۔

نوازشریف نے کہا کہ جو کچھ ہوا سب قوم کے سامنے ہے، اب یہ باتیں ڈھکا چھپا راز نہیں ہیں، نااہلی، پارٹی صدارت سے ہٹانے کے اسباب ومحرکات کوقوم بھی اچھی طرح جانتی ہے، مجھے مقدمات میں کیوں الجھایا گیا، قوم اور ملک کا مفاد مزیدکہنے کی اجازت نہیں دیتا، جب فیصلے پہلے ہوجائیں توجوازکے لیے حیلے بہانے تراشے جاتے ہیں، مائنس ون کا اصول طے پاجائے تو اقامہ جیسابہانہ بھی بہت کافی ہوتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ قوم کو وہ پاکستان دیا جو زندگی کے ہر شعبے میں 2013 کے پاکستان کے مقابلے میں زیادہ روشن مستحکم توانا تھا، یہ اس ملک کے دانشوروں اور مبصرین نے دیکھنا ہے کہ 28 جولائی کے فیصلے نے اس پاکستان اور عوام کو کیا دیا، معیشت، توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو کتنا نقصان پہنچایا، ملک میں سیاسی عدم استحکام کو کتنی ہوا دی، مکن ہے مجھے حکومت سے بے دخل کرنے سے کچھ لوگوں کی تسکین ہوگئی ہے لیکن کوئی بتا سکتا ہے کہ ملک کی جمہوریت، آئینی نظام اور احترام کو کیا ملا۔

ان کا کہنا تھاکہ عدالتی فیصلے کے حوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتا، فیصلے میں شروع سے آخر تک بدعنوانی کسی کو نظر نہیں آئی، نا انصافی ہر ایک کو نظر آرہی ہے۔۔