کچھ علاقوں میں بعض جانداروں کی نسلوںواقسام اور آماجگاہوں کے تحفظ میں چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے ، سینیٹر مشاہد اللہ خان

منگل 22 مئی 2018 23:07

کچھ علاقوں میں بعض جانداروں کی نسلوںواقسام اور آماجگاہوں کے تحفظ میں ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مئی2018ء) وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ کچھ علاقوں میں بعض جانداروں کی نسلوںواقسام اور آماجگاہوں کے تحفظ میں چیلنجز اور مشکلات کا سامنا ہے ۔ انہوں نے یہ بات پیر کو یہاں حیاتیاتی تنوع کے عالمی دن کے موقع پر کہی جو کہ ہر سال 22مئی کو منایا جاتا ہے ۔ اس سال کے دن کا مرکزی موضوع ’’حیاتیاتی تنوع کے لیئے 25سالہ اقدامات کو مناتے ہوئے ‘‘ ہے ۔

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ پاکستان حیاتیاتی تنوع کے باے میں کنونشن کا فریق 1994ء میں بنا تھا ۔ اس سے پہلے پاکستان نے قومی حکمت عملی کی تیاری کے لئے ماحولیا تی شعبہ میںبڑا کام کیا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی حیاتیاتی تحفظ بارے قومی حکمت عملی میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور اس کے پائیدار استعمال کے عناصر پائے جاتے ہیں جس سے جانداروں اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ کے لئے پاکستان کی کوششوں کی ترجیح ظاہر ہوتی ہے ۔

(جاری ہے)

پاکستان نے شروع سے ہی جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے صوبوں میں کام بارے لیگل فریم ورک دیا اور پاکستان آماجگاہوں اور حیاتیاتی تنوع کے تحفظ سے متعلقہ دیگر کئی بین الا قوامی کنونشنوں کی پارٹی بن گیا ۔ اس کے علاوہ آماجگاہوںاور انواع و اقسام کی نسلوں کی اہمیت کو مد نظرر کھتے ہوئے 1970ء میں محفوظ قرار دئیے گئے علاقوں کا نیٹ ورک قائم کیا گیا اور پاکستان نے کنزرویشن کے لائحہ عمل بارے علاقوں کی مینجمنٹ کا پراجیکٹ تیا ر کیا ۔

انہوں نے کہا کہ سپیشیز کے تحفظ کے لئے ملک کے شمالی علاقہ جات میں ٹرافی نٹنگ پروگرام شروع کیا گیا اور اس پروگرام سے مارخور ،اڑیل ، آئی بیکس، جنگلی بکریوں اور بلیو شیپ کی آبادیوں کا تحفظ کرنے میں بڑی مدد ملی ۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے حال ہی میں استولہ نامی جزیرہ کو فرسٹ میرین پروٹیکٹیڈ ایریا قرار دیا ہے اور دیگر علاقوں کو بھی میرین کے تحفظ کے لئے پروٹیکٹیڈ ایریا قرار دئیے جانے کے اعلان بارے مشاورت جاری ہے ۔

وفاقی وزیر نے اپنے پیغام میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ بارے کنونشن کی شقوں پر عمل در آمد کئے جانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی کمی،لوگ خوراک، صحت اور زرعی مقاصد کے لئے حیاتیاتی تنوع کے وسائل پر انحصار کرتے ہیں جس سے ہمارے سائنس دانوں اور پالیسی سازوں کو کچھ چیلنجز کا سامنا ہے۔ عباس شاہد

متعلقہ عنوان :