خیبر پختونخوا میں پانچ برسوں کے دوران شعبہ صحت کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے بجٹ میں 200فیصد تک اضافہ ، عوام کی طبی سہولیات تک رسائی ممکن بنانے کیلئے 5ارب 36 کروڑ روپے کی لاگت سے صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیاگیا، رپورٹ

منگل 22 مئی 2018 22:25

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 مئی2018ء) محکمہ صحت کی جانب سے جاری کی گئی پانچ سالہ کارکردگی رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں پانچ برسوں کے دوران شعبہ صحت کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے بجٹ میں 200فیصد تک اضافہ کیا گیا ،صوبے میں عوام کو صحت سہولیات تک رسائی ممکن بنانے کیلئے 5ارب 36 کروڑ روپے کی لاگت سے صحت انصاف کارڈ کا اجراء کیاجس سے صوبے کی 70فیصد آبادی مستفید ہورہی ہے، رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ عوامی فلاح کے اس اقدام کی بدولت صوبے کے عوام 106منتخب سرکاری و غیرسرکاری ہسپتالوں سے علاج معالجے کی سہولت حاصل کررہے ہیں ،اعدادوشمار کیمطابق اب تک اس پروگرام کے ذریعے علاج کرنے والوں پر 2ارب 64کروڑروپے کا خرچہ آچکا ہے،شعبہ صحت کے بجٹ میں نمایاں اضافے کے بعد روایتی ترقیاتی سکیموں کے علاوہ گزشتہ10برسوں میں بننے والی صحت کی سہولیات کو مکمل طور پر فعال کردیا گیا ہے جبکہ ہسپتالوں کی استعداد کار بڑھانے کے لیے عملے کی تعیناتی اور جدید آلات بھی فراہم کیے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

صوبے کے بنیادی مراکز صحت سے لے کرایم ٹی آئی ہسپتالوں تک 13ارب روپے کے آلات خریدے گئے،صوبے کے مختلف اضلاع میں پہلے سے جاری15منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے ہسپتالوں میں 2085بستروں کی سہولت میسر کی گئی جبکہ مزید 15منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں جس سے مزید 2626بستروں کی سہولت دستیاب ہوسکے گی۔رپورٹ کے مطابق صوبے کے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں اور ایم ٹی آئی تدریسی ہسپتالوں میں 3برس میں شعبہ حادثات میں مفت ادویات کی مد میں سالانہ ایک ارب روپے دیے گئے جس سے ایک کروڑ 80لاکھ مریض مستفید ہوئے۔

دیہی مراکز صحت کو 24گھنٹے طبی سہولیات فراہمی کی غرض سے فعال کیا گیا ہے،صوبے کی111دیہی مراکز صحت میں سی62 مراکز چوبیس گھنٹے خدمات فراہم کررہے ہیں۔عوام کو شعبہ صحت میں درپیش بہت سی مشکلات کے حل کے پیش نظر اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں،دوردراز علاقوں میں طبی سہولیات کی باآسانی فراہمی کے لیے ٹیلی میڈیسن پروگرام شروع کیا گیا جسکی رو سے پانچ اضلاع میں 95ملین روپے کی لاگت سے منتخب دیہی مراکز صحت میں ضروری آلات مہیا کیے گئے ہیں جبکہ ہیڈ کوارٹر سروسز ہسپتال پشاور کو مقررکیا گیا۔

ان کے علاوہ صوبے میں جھلسنے والے مریضوں کو علاج فراہمی کے لیے برن اینڈ ٹراما سنٹر کے کام کو مکمل کیا جارہا ہے، جو گزشتہ آٹھ برسوں سے ورکرز ویلفیئربورڈ کی عدم توجہی کے باعث تعطل کا شکار تھا۔ اس سنٹر کی تعمیر کی مجموعی لاگت 2.2ارب روپے میں 1.7ارب روپے صوبائی حکومت کی جانب سے ادا کیے گئے ہیں۔یہ سنٹر 30جون تک فعال ہوجائے گا۔رپورٹ کے مطابق صوبے میں کینسر کے مریضوں کے مفت علاج کے منصوبے کو بھی وسعت دی گئی،منصوبہ کا بجٹ1.9ارب تک بڑھایا گیا جسکے بعد مفت علاج سے مستفید ہونے والوں کی تعداد 3500ہوگئی ذیابیطس،گردوں کے امراض اور ٹرانسپلانٹ کے بعد ادویات فراہمی کے لیے 925ملین روپے کا بجٹ جاری کیا گیا جس سے اب تک87ہزار968مریضوں کو فائدہ ہوا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شعبہ صحت کو مستحکم کرنے اور نظام کو مربوط بنانے کے لیے اہم قانونی اصلاحات کی گئی ہیں۔سرکاری تدریسی ہسپتالوں کو خودمختار بنانے کے لیے ایم ٹی آئی ریفارمز ایکٹ 2015منظور کیا گیا۔ سرکاری و نجی مراکزصحت کی کارکردگی و معیار جانچنے کے لیے ہیلتھ کئیر کمیشن کے قیام کے لیے ہیلتھ کئیر کمیشن ایکٹ 2015بھی منظور ہوا۔

اسکے علاوہ صحت کے لیے نقصان دہ خوراک کی روک تھام کے لیے فوڈ سیفٹی اتھارٹی ایکٹ2014،انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے لیے خیبر پختونخوا اعضاء پیوندکاری ایکٹ2014،محفوظ انتقال خون اتھارٹی ایکٹ 2016 اور دیگر6مختلف قوانین منظور کیے گئے۔سرکاری ہسپتالوں میں کارکردگی کو بہتر بنانے اور سہولیات کی فراہمی کے نظام کی نگرانی کے لیے خودمختار مانیٹرنگ یونٹ قائم کیا گیا جس کے بعد ہسپتالوں کی کارکردگی بہتر اور مشینری فعال ہوئی ہے۔

آئی ایم یو کی رپورٹ کے پیش نظر غیر حاضر عملے اور ڈاکٹروں سے ابتک3کروڑ 50لاکھ کی کٹوتی ہوئی جبکہ ادویات کا زخیرہ68فیصد تک پہنچا ہے۔اسکے علاوہ ہسپتالوں کی مشینری کی فعالیت74فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ضلعی افسر صحت اور بجٹ عملے کی مدد کے لیے فنانشل مینجمنٹ یونٹ قائم کیا گیا ہسپتالوں میں ادویات اور آلات کے انتخاب اور خریداری کے لیے پروکیورمنٹ سیل 2016سے قائم کیا گیا جسکے بعد ادویات اور آلات کی خریداری میں بچت ہوئی اور کوالٹی بہتر ہوئی ہے۔

متعلقہ عنوان :