ایون فیلڈریفرنس، نواز شریف نے دوسرے روز بھی بیان قلمبند کرایا،128میں سے 123سوالات کے جوابات دیدیئے

قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں خود شریک ر ہا نہ ہی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی منی ٹریل کی تفصیلات کا حصہ ‘ حسن اور حسین نواز لندن فلیٹس سے متعلق اپنے قول و فعل کے خود ذمہ دار ہیں ‘ مجھے نہیں معلوم کہ 2006 سے پہلے مریم نواز کا منروا سروسز سے تعلق تھا‘ قطری شہزادہ اپنا بیان ریکارڈ کروانا چاہتا تھا تاہم جے آئی ٹی نے اس کا بیان ریکارڈ نہیں کیا ‘ سابق وزیراعظم کا عدالت میں بیان کیس کی سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر اور خواجہ حارث میں تلخ کلامی ‘ نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کی جگہ خواجہ حارث کی طرف سے بیان پڑھنے پر اعتراض کیا ، نواز شریف عدالت میں بیان پڑھتے رہے‘ کیس کی سماعت (کل) بدھ تک ملتوی ، نواز شریف (کل) بھی اپنا بیان جاری رکھیں گے

منگل 22 مئی 2018 21:26

ایون فیلڈریفرنس، نواز شریف نے دوسرے روز بھی بیان قلمبند کرایا،128میں ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 22 مئی2018ء) احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس(لندن فلیٹس) میں دوسرے روز بھی اپنا بیان قلمبند کرایا ‘ سابق وزیراعظم نے عدالت کو بتایا کہ قطری خاندان کے ساتھ کاروبار میں وہ خود شریک رہے نہ ہی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی منی ٹریل کی تفصیلات کا حصہ رہے ہیں ‘ حسن اور حسین نواز لندن فلیٹس سے متعلق اپنے قول و فعل کے خود ذمہ دار ہیں ‘ مجھے نہیں معلوم کہ 2006 سے پہلے مریم نواز کا منروا سروسز سے تعلق تھا‘ ‘ قطری شہزادہ اپنا بیان ریکارڈ کروانا چاہتا تھا تاہم جے آئی ٹی نے اس کا بیان ریکارڈ نہیں کیا ‘ نواز شریف نے 128میں سے 123سوالات کے جوابات دیدیئے‘ کیس کی سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر اور خواجہ حارث میں تلخ کلامی ہوئی‘ نیب پراسیکیوٹر نے نواز شریف کی جگہ خواجہ حارث کی طرف سے بیان پڑھنے پر اعتراض کیا جس کے بعد نواز شریف عدالت میں بیان پڑھتے رہے‘ عدالت نے کیس کی سماعت (کل) بدھ تک ملتوی کردی‘ (کل) بدھ کو بھی نواز شریف اپنا بیان جاری رکھیں گے۔

(جاری ہے)

منگل کو ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی، اس موقع پر نامزد ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر)محمد صفدر کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ سابق وزیراعظم نے سماعت کے دوران قطری شہزادے کے خط، گلف اسٹیل ملز، کیپٹل ایف زیڈ ای سمیت دیگر اثاثوں سے متعلق پوچھے گئے سوالات کے جواب دیے۔سماعت کے دوران نواز شریف نے اپنا بیان قلمبند کرانے کے دوران قطری خطوط کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ خطوط کی تصدیق خود حمد بن جاسم نے سپریم کورٹ کو خط لکھ کر کی جب کہ وہ بیان دینے کو بھی تیار تھے لیکن جے آئی ٹی نے ان کا بیان ریکارڈ نہیں کیا۔

نواز شریف نے کہا کہ واجد ضیا کا سارا بیان رائے پر مبنی تھا جو جے آئی ٹی نے خود بنایا، جے آئی ٹی کی رائے قابل قبول شہادت نہیں اور واجد ضیا کے اخذ کردہ نتائج بھی قابل قبول شہادت نہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ 'قطری خاندان کے ساتھ سرمایہ کاری اور ایون فیلڈ کی سیٹلمنٹ سے میرا کوئی تعلق نہیں۔نواز شریف نے کہا کہ واجد ضیا کے مطابق حمد بن جاسم میرے کہنے پر شامل تفتیش نہیں ہوئے جو بھونڈا الزام ہے جب کہ واجد ضیا نے کہا جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا کہ کسی کو بھی سوالنامہ نہیں بھیجا جائے گا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ دوران جرح واجد ضیا نے تسلیم کیا کہ جرمی فری مین کو سوالنامہ بھجوایا گیا، یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ واجد ضیا قابل اعتبار گواہ نہیں، وہ ملزمان کو کیس میں ملوث کرنے کے لئے جعلسازی بھی کر سکتے تھے۔نواز شریف نے مزید کہا کہ سب گواہ ہیں کہ واجد ضیا کو مریم نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ دیں، وہ جانبدار، متعصب اور مجھ سے مخالفت رکھتے ہیں۔

احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوال کیپیٹل ایف زیڈ ای سے متعلق اصل سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا، کیا کہیں گی پر نواز شریف نے کہا کہ یہ دستاویزات قانون شہادت کے تحت قابل قبول نہیں، واجد ضیا نے بیان رکارڈ کراتے ہوئے یہ دستاویز مذموم مقاصد کے تحت پیش کیں، اس دستاویز کا عائد کی گئی فرد جرم سے تعلق نہیں۔نواز شریف نے کہا کہ کمپنی کے قرض اور لین دین کے معاملات سے بھی کوئی تعلق نہیں، متحدہ عرب امارات کی وزارت انصاف کا خط کسی ایم ایل اے کے جواب میں آیا تو معلوم نہیں، عرب امارات کی وزارت انصاف کے خط کو کبھی ریکارڈ پر بطور شواہدنہیں لایا گیا اس لیے اسے بطور شہادت استعمال نہیں کیا جاسکتا۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ جافزا کے فارم 9 اور ملازمت کا ریکارڈ قابل قبول شہادت نہیں اور قانون شہادت کہتا ہے کہ اسکرین شاٹ قابل قبول شہادت نہیں۔دبئی اسٹیل ملز سے متعلق نواز شریف نے کہا کہ دبئی اسٹیل ملز کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے علاوہ مجھے باقی معاملات کا پتہ نہیں۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ گلف اسٹیل کے 80 فیصد شئیرز کی فروخت 1980 کے معاہدے میں کبھی شامل نہیں رہا اور گلف اسٹیل مل کی فروخت اور ٹرانزیکشن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

احتساب عدالت کے سوال بائیس جون 2012 کا موزیک فونسیکا کے نیلسن اور نیسکول سے متعلق خط پر کیا کہتے ہیں' کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کے پیش کردہ موزیک فونسیکا کے 2012 کے خط کو پرائمری دستاویز نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ یہ خط مروجہ قوانین کے تحت مصدقہ نہیں، واجد ضیا کی دستاویز کا متن شہادت کے طور پر پڑھنا ملزم کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کے اختر راجا کزن ہیں جن کا عدالت میں دیا گیا بیان جانبدارانہ تھا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ جیرمی فری مین کے 5 جنوری 2017 کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق کی گئی جس نے کومبر گروپ اور نیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔ نوا زشریف نے کہا جیرمی فری مین کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی لیکن اختر راجا اور جے آئی ٹی نے ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپیاں لینے کی کوشش نہیں کی، اختر راجا کو معلوم ہونا چاہیے کہ فوٹو کاپی پر فرانزک معائنے کا کوئی تصور موجود نہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجا نے جلد بازی میں دستاویزات خود ساختہ فرانزک ماہر کو ای میل کے ذریعے بھجوائیں اور یہ بھی حقیقت ہے فرانزک ماہر نے فوٹو کاپی پر معائنے کے لیے ہچکچاہٹ ظاہر کی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجہ نے نیب کی 3رکنی ٹیم کی رابرٹ ریڈلے سے ڈھائی گھنٹے ملاقات کرائی، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں، اس کے پاس اصل دستاویز ہی نہیں تھی جب کہ سپریم کورٹ میں پہلے جمع کرائی گئی ڈیڈ میں غلطی سے پہلا صفحہ مکس ہوگیا تھا اور اختر راجا نے اس واضح غلطی کی نشاندہی بھی نہیں کی۔

احتساب عدالت کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ یہ درست ہے کہ حسن اور حسین اس عدالت کی طرف سے اشتہاری قرار دیے گئے اور ان کا اشتہاری قرار دیا جانا میرے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا۔نواز شریف نے کہا کہ حسن اور حسین بالغ ہیں اور وہ اپنے عمل کے خود ذمہ دار ہیں۔سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے ملزم کے بیان قلمبند کیے جانے کے طریقے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ 6 دن کی لکھی ہوئی کہانی پڑھ کر سناتے رہیں، 342 کے بیان کی منشا یہ ہے کہ ملزم بیان قلمبند کرائے جس کے دوران قانونی نکات پر وکیل سے مدد لی جاسکتی ہے۔

اس موقع پر جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ بتائیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میرا اعتراض عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے۔نواز شریف نے اس موقع پر کہا کہ میں اس بیان پر قائم ہوں، یہ بیان میں نے خود وکیل خواجہ حارث کی مشاورت سے تیار کیا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ میں زیادہ دیر تک پڑھتا رہوں تو گلے میں مسئلہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے خواجہ صاحب کو پڑھنے کا کہا، نیب کو اس پر اعتراض کرنا تھا تو گزشتہ روز کرلیتے۔

نیب پراسیکیوٹر کے اعتراض کے بعد نواز شریف نے خود بیان پڑھنا شروع کیا۔ایون فیلڈ ریفرنس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی اور نواز شریف کل مزید 5 سوالات کے جواب دیں گے، سابق وزیراعظم کا بیان مکمل ہونے کے بعد مریم نواز اور کیپٹن (ر)صفدر اپنا بیان قلمبند کرائیں گے۔