ترکی؛بغاوت اور میں ملوث 100 سے زائد افراد کو عمر قید کی سزا سنادی گئی

ملزمان میں سابق ایئرفورس چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل حسن حسین ڈیمیراسلن اور سابق آرمی چیف آف کمانڈ میجر جنرل میمدوح حیکبلین شامل افراد کو صدر کو قتل کرنے کی سازش میں 20 سال سزا جبکہ 31 افراد کو عسکری گروپ کا حصہ بننے پر 6 ماہ سے 10 سال تک کی سزائیں سنائیں گئیں

منگل 22 مئی 2018 17:18

انقرہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مئی2018ء) ترکی میں ایک عدالت نے صدر رجب طیب اردگان کیخلاف 2016 میں بغاوت اور قتل کی سازش کرنے میں ملوث 104 افراد کو عمر قید کی سزا سنادی ہے۔ترک نشریاتی ادارے کے مطابق صوبے ازمیر کی عدالت کی جانب سے سابق فوجی اہلکاروں کو آئینی احکامات معطل کیے جانے کی کوشش کرنے پر سنگین عمر قید کی سزا دی گئی،جبکہ 280 فوجی اہلکار اس الزام کے تحت مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔

اس قسم کی سنگین قید کی سزا ترکی میں سزائے موت کا متبادل مانی جاتی ہیں،عمومی طورپر دی جانے والی عمر قید سے کہیں زیادہ سخت ہوتی ہے۔اس ضمن میں سزا پانے والے ملزمان میں سابق ایئرفورس چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل حسن حسین ڈیمیراسلن اور سابق آرمی چیف آف کمانڈ میجر جنرل میمدوح حیکبلین شامل ہیں۔

(جاری ہے)

عدالت نے 21 مشتبہ افراد کو صدر کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہونے پر 20 سال کی سزا جبکہ 31 افراد کو عسکری گروپ کا حصہ بننے پر 6 ماہ سے 10 سال تک کی مختلف سزائیں سنائیں۔

بغاوت کی رات مبینہ طور پر ترک صدر کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا،اس وقت صدر طیب اردگان چھٹیوں پر مرمریز میں ایک سیر گاہ میں اپنے اہلخانہ کے ہمراہ موجود تھے،جن کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے حساب سے وہ موت سے محض 15 منٹ کے فاصلے پر تھے۔2016 میں ہونیوالی بغاوت میں 240 افراد ہلاک ہوئے تھے،اس کے علاوہ 24 باغیوں کو بھی منطقی انجام تک پہنچایا گیا،جبکہ 2 ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

اس ضمن میں انقرہ نے امریکا میں مقیم مبلغ فتح اللہ گولن پر اس ناکام بغاوت کے احکامات دینے کا الزام عائد کیا تھا جن کی جانب سے الزامات کی سختی سے تردید کی گئی تھی۔ترک حکام کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن کی تحریک دہشتگردی کی تنظیم ہے جبکہ تنظیم کاموقف ہے کہ ہم امن اور اعتدال پسند اسلام کی ترویج کرتے ہیں۔علاوہ ازیں ترکی میں 2016 کی بغاوت کے بعد سے ہنگامی صورتحال نافذ ہے جس کے تحت اب تک 50 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور ایک لاکھ 40 ہزار سرکاری اہلکاروں کو مبینہ طور پر فتح اللہ گولن کی تنظیم یا عسکریت پسندوں سے رابطے ہونے پر برطرف یا معطل کیا جا چکا ہے۔

اس ضمن میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بغاوت کی کوشش کے بعد سے حکام نے ایک لاکھ 60 ہزار افراد کو قید جبکہ تقریباً اتنی ہی تعداد میں سرکاری اہلکاروں کو کریک ڈاؤن میں برطرف کیا، جبکہ 50 ہزارافراد پر باقاعدہ مقدمہ قائم کیا گیا ہے جو جیلوں میں قید سماعت کے منتظر ہیں۔واضح رہے ترک حکومت کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے کریک ڈاؤن سے دائیں بازو کی جماعتوں کیساتھ مغربی اتحادیوں کو بھی تشویش ہے،جن کو ڈر ہے کہ طیب اردگان کی سربراہی میں ترکی آمریت کی جانب گامزن ہے،ان کی جانب سے ترک صدر پر بغاوت کو مخالفین کا صفایا کرنے کے استعمال کرنے کا بھی الزام ہے،تاہم ترک حکومت کا کہنا تھا کہ ترکی کو جس قسم کے حفاظتی خطرات کا سامنا ہے اس کے پیش نظر اس قسم کے سخت اقدامات اٹھانا ناگزیر تھا۔