سرینگر‘ شہر خاص کے حول کو 28 سال قبل مقتل میں تبدیل کرنے میں ملوث سی آر پی ایف کے 15اہلکاروں کیخلاف کیس درج کرنے کا مطالبہ

منگل 22 مئی 2018 13:06

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 مئی2018ء) شہر خاص کے حول کو 28 سال قبل مقتل میں تبدیل کرنے میں ملوث سی آر پی ایف کے 15اہلکاروں کیخلاف بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں عرض دہندہ محمد احسن انتو نے عرضی دائر کرتے ہوئے کرائم برانچ میں کیس درج کرنے کا مطالبہ کردیا۔ کمیشن کی تحقیقات ونگ نے پولیس اور کرائم برانچ کے تحقیقات کے غبارے سے ہوا نکال کر اسے غیر جانبدارانہ قرار دیا ہے۔

1990 میں مرحوم میر واعظ محمد فاروق کو جلوس جنازہ پر شہر خاص کے حول علاقے میں اندھا دھند فائرنگ کے دوران پیش آئے واقعے کے اگرچہ 28 برس گزر چکے ہیں تاہم یہ سانحہ ابھی بھی حول کے لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے۔ 1990 میں حول کی سڑکوں پر خون کی ہولی کھیلی گئی اس کے چھینٹے زاید از 2 دہائی گزر جانے کے باوجود جاں بحق ہوئے لوگوں کے رشتہ داروں اور اہل خانہ کے دل پر پیوست ہیں۔

(جاری ہے)

اس سانحہ میں زخمی ہونیوالے اور معجزاتی طور پر بچنے والے لوگوں کے کانوں میں اب بھی گولیوں کی گنگناہٹ اور فورسز کی دندناہٹ سنائی دیتی ہے۔ ریاستی حقوق انسانی کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال ناز کی پیش کی گئی عبوری رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ سی آر پی ایف نے 21 مئی 1990 کو حول اور گوجوارہ کے نزدیک میر واعظ مولوی فاروق کے جلوس جنازہ میں شامل لوگوں پر کی گئی اندھا دھند فائرنگ کی تحقیقات عمل میں لانے کیلئے 3 اعلیٰ افسروں پر مشتمل ایک کورٹ آف انکوائری تشکیل دی۔

رپورٹ میںکہا گیا کہ ایم پی سنگھ کی سربراہی والی کورٹ آف انکوائری ٹیم نے اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ 21مئی 1990 کوسرینگر کے حول علاقہ کے نزدیک جو فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔ اس میں سی آر پی ایف کی 69 ویں بٹالین سے وابستہ 15 اہلکاروں کو ملوث پایا گیا اور ان سبھی افسروں اور اہلکاروں نے عام شہریوں پر اندھا دھند گولیاں چلانے کا ارتکاب کیا۔

دی ایس پی ایس ایچ آر سی نے سربراہ کمیشن کو پیش کردہ اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ انہیں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ شہریوں کے قتل عام میں ملوث 15 سی آر پی ایف افسروں اور اہلکاروں کیخلاف بعد ازاں کوئی ایکشن لیا گیا یا کوئی قانونی کارروائی عمل میں لائی گئی یا نہیں۔ رپورٹ میں اس قتل عام کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے 50 سے زیادہ عام شہریوں کی ہلاکت کی مناسبت سے پولیس تھانہ نوہٹہ نے ایف آئی آر زیر نمبر 35/1990 کے تحت کیس درج کیا تھا۔

کمیشن کی تحقیقات ونگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کے ایڈیشنل ایس پی ہیڈ کوارٹر س این سروادھانے اس معاملے میں اگرچہ سب سے پہلے تحقیقات کی تاہم و غیر جانبدارانہ تھی کیونکہ کسی بھی چشم دید گواہ کے بیان کو قلمبند نہیں کیا گیا اور سی آر پی ایف کے بیانات ہی قلمبند ہوئے۔ رپورٹ میں اس بات کی وضاحت کی گئی کہ سانحہ 27 برس گزر جانے کے بعد عینی گواہوں کے بغیر دیگر ثبوت کی مسابقت اب کھو چکی ہے جبکہ 1990 میں اس کیس کی تحقیقات کرنیوالے اولین تحقیقاتی افسر ایڈیشنل ایس پی ہیڈ کوارٹرس این سروادھا کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مذکورہ افسر نے دانستہ اور غفلت شعاری کا مظاہرہ کیا۔

پولیس کے سی آئی ڈی محکمہ کا تاہم اپنی رپورٹ میں کہنا ہے کہ تحقیقات کے دوران مذکورہ روز جائے وقوع پر تعینات کچھ اہلکارں کے بیانات کو قلمبند کیا گیا ہے۔ سی آی ڈی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فورسز اہلکاروسں کے مطابق اس روز کو کرفیو نافذ کیا گیا تھا اور کرفیو کے دوران ہی کچھ جنگجووں نے فورسز اہلکاروں پر گولیاں چلائیں جبکہ فورسز نے دفاع میں جوابی کارروائی عمل میں لائی جس کے دوران 35 شہری ہلاک ہوئے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کیس کو تحقیقات کیلئے کرائم برانچ کشمیر کے سپرد کیا گیا۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق تحقیقات کے دوران کیس کو عدم شناخت کے طور پر بند کیا گیا کیونکہ سخت کوششوں کے باوجود کوئی بھی سراغ حاصل نہیں ہوا۔ عرضی دہندہ محمد احسن انتو نے کمیشن میں جوابی دعویٰ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب سی آر پی ایف کی کورٹ آف انکوائری میں 15 اہلکاروں کو مجرم قرار دیا گیا ہے تو آئی جی کرائم کو ہدایت دی جائے کہ وہ ان اہلکاروں کیخلاف کیس درج کریں۔