ایون فیلڈ ریفرنس،

نواز شریف نے سپریم کورٹ کے پاناما کیس فیصلے کو نامناسب اور غیرضروری قرار دیدیا سپر یم کورٹ کے فیصلے سے میرا شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوا، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اختیارات دیے کہ قانونی درخواستوں کو نمٹایا جاسکے، ایسے اختیارات غیرمناسب اور غیر متعلقہ تھے،جے آئی ٹی کی والیم دس پر مشتمل خود ساختہ رپورٹ غیر متعلقہ تھی، یہ ناقابل قبول شہادت ہے، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے، جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت میں پیش نہیں کیے گئے ، ان کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے، ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا سابق وزیراعظم نواز شریف کا ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران بیان

پیر 21 مئی 2018 17:00

ایون فیلڈ ریفرنس،
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 21 مئی2018ء) احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف نے بیان قلمبند کراتے ہوئے سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق فیصلے اور جے آئی ٹی کو نامناسب اور غیر ضروری قرار د یتے ہوئے کہا کہ سپر یم کورٹ کے فیصلے سے میرا شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوا، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اختیارات دیے کہ قانونی درخواستوں کو نمٹایا جاسکے، ایسے اختیارات غیرمناسب اور غیر متعلقہ تھے،جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم دس پر مشتمل خود ساختہ رپورٹ غیر متعلقہ تھی، یہ ناقابل قبول شہادت ہے، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے، جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت میں پیش نہیں کیے گئے اس لیے ان کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے، ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا ۔

(جاری ہے)

پیر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف روسٹرم پر آئے اور انہوں نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے دیئے گئے سوالات کے جوابات پڑھ کر سنائے سماعت کے ابتدا میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے پہلے سوال میں اپنے عوامی عہدوں کی تفصیلات پڑھ کر سنائیں۔نواز شریف نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ میری عمر 68 سال ہے، میں وزیراعلی پنجاب اور وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں۔

نوازشریف نے مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق جواب دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی لیکن مجھے جے آئی ٹی کے ممبران پر اعتراض تھا اور یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا جب کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے مجھے یہ حق دیتا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبران کی سیاسی جماعتوں سے وابستگی ظاہر ہے جس کے ممبران میں بلال رسول سابق گورنر پنجاب میاں اظہر کے بھانجے ہیں جو(ن)لیگ کی حکومت کے خلاف تنقیدی بیانات دے چکے ہیں۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ بلال رسول کی اہلیہ تحریک انصاف کی سرگرم کارکن بھی ہیں۔سابق وزیراعظم نے بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ واجد ضیا نے اپنے کزن کے ذریعے تحقیقات کرائیں جب کہ تحقیقات میں ان کی جانبداری عیاں ہے۔نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبر عامر عزیز بھی جانبدار ہیں جو سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاسی جماعت سے وابستگی رکھتے ہیں جب کہ وہ پرویز مشرف دور میں میرے اور فیملی کے خلاف نیب ریفرنس نمبر 5 کی تحقیقات میں شامل رہے۔

جے آئی ٹی کے ایک اور رکن عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے جنہیں جے آئی ٹی میں شامل کر دیا گیا۔سابق وزیراعظم نے ایک اور اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایم آئی اور آئی ایس آئی افسران کا جے آئی ٹی کا حصہ بننا غیر مناسب تھا، موجودہ سول ملٹری تعلقات میں تنا ئو کے اثرات جے آئی ٹی رپورٹ پر پڑے۔ انہوں نے کہا کہ سول ملٹری تنا ئو پاکستان کی تاریخ کے 70 سال سے زائد عرصے پر محیط ہے، پرویز مشرف کی مجھ سے رقابت 1999 سے بھی پہلے کی ہے جنہوں نے جے آئی ٹی رکن عامر عزیز سے حدیبیہ پیپر ریفرنس میں ہمارے خلاف تحقیقات کرائیں۔

نواز شریف نے کہا کہ جنرل(ر)پرویز مشرف علاج کے بہانے بیرون ملک گئے اور اس وقت خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کے خلاف سنگین غداری کیس کے بعد تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا۔سابق وزیراعظم نے کہا ڈان لیکس کی وجہ سے سول ملٹری تنا میں اضافہ ہوا اور میری اطلاعات کے مطابق بریگیڈیئر نعمان سعید ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کا حصہ تھے جب کہ جے آئی ٹی میں تعیناتی کے وقت نعمان سعید آئی ایس آئی میں نہیں تھے، انہیں آ ئوٹ سورس کیا گیا کیونکہ ان کی تنخواہ بھی سرکاری ریکارڈ سے ظاہر نہیں ہوتی۔

نواز شریف نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے حکم کو نامناسب اور غیر ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے میرا شفاف ٹرائل کا حق متاثر ہوا، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کو اختیارات دیے کہ قانونی درخواستوں کو نمٹایا جاسکے، سپریم کورٹ کی طرف سے ایسے اختیارات غیرمناسب اور غیر متعلقہ تھے۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم دس پر مشتمل خود ساختہ رپورٹ غیر متعلقہ تھی، جو ناقابل قبول شہادت ہے، سپریم کورٹ نے یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ جے آئی ٹی کی طرف سے لکھے گئے ایم ایل ایز عدالت میں پیش نہیں کیے گئے اس لیے ان کی بنیاد پر فیصلہ نہ دیا جائے۔