پاکستان مثبت سمت میں گامزن ہو چکا ہے،

ہمیں استحکام، امن اور تسلسل برقراررکھ کر اقتصادی ترقی کی منزل تک پہنچنا ہے، دنیا ہماری کامیابیوں پر حیران اورپاکستان کوابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہی ہے، اپنی سوچ کو بدلنے اور نئے عہد کے لئے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے، نیشنل سنٹر آف سائبر سکیورٹی کاقیام میراخواب تھا جو پورا ہوا، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متاثرہ سے فاتح تک کا سفر طے کیا ہے پاکستان کو آنے والے دور کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار کرنے کی غرض سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس سائبر سکیورٹی اور آٹوبیشن و روبوٹکس کے سنٹر آف ایکسلینس بھی قائم کئے جارہے ہیں وزیر داخلہ و منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات پروفیسر احسن اقبال کا ایئر یونیورسٹی میں پاکستان نیشنل سنٹر فار سائبر سکیورٹی کی افتتاحی تقریب سے خطاب

پیر 21 مئی 2018 14:43

پاکستان مثبت سمت میں گامزن ہو چکا ہے،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 21 مئی2018ء) وزیر داخلہ و منصوبہ بندی، ترقی و اصلاحات پروفیسر احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان مثبت سمت میں گامزن ہو چکا ہے، ہمیں استحکام، امن اور تسلسل برقراررکھ کر اقتصادی ترقی کی منزل تک پہنچنا ہے، دنیا ہماری کامیابیوں پر حیران اورپاکستان ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہی ہے، ہمیں اپنی سوچ کو بدلنے اور نئے عہد کے لئے خود کو تیار کرنے کی ضرورت ہے، نیشنل سنٹر آف سائبر سکیورٹی کاقیام میراخواب تھا جو پورا ہوا۔

پیر کو ایئر یونیورسٹی میں پاکستان نیشنل سنٹر فار سائبر سکیورٹی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہاکہ میرے لئے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ آج ایک ایسے سنٹر کے قیام کی تقریب میں شریک ہوں جو میرا ایک خواب تھا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ 6 مئی کو ایک انتہا پسند نے بزدلانہ حملہ کرکے میری جان لینے کی کوشش کی لیکن جان بچانے والا مارنے والے سے بڑا ہے۔

انہوں نے کہاکہ حملہ آور کی ایک گولی جو میرے جسم میں ہے مجھے ہمیشہ یہ یاد دلاتی رہے گی کہ معاشرے سے نفرتوں کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ نفرتیں معاشروں کو کھا جاتی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنا ہم سب کی ذمہ داری ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک ایسے ملک کے لئے جدوجہد کی تھی جہاں تمام شہری رنگ و نسل، زبان سمیت ہر قسم کے امتیاز سے بالا تر ہو کر امن ہم آہنگی اور یکجہتی سے ایک خاندان کی طرح رہ سکیں۔

انہوں نے کہاکہ بعض عناصر تشدد کے ذریعے اپنا ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ 2013 ء میں ہم نے اقتدار سنبھالا تو مساجد ، عبادت گاہوں ، مارکیٹوں، سکولوں، ہسپتالوں سمیت کوئی جگہ محفوظ نہ تھی اور یہ قوم جنازے اٹھا اٹھا کر تنگ آچکی تھی لیکن پھر قوم نے دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنے بھر پور عزم سے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی لیکن دہشت گردوں کے خلاف ابھی کام کرناباقی ہے۔

دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ تشدد اور نفرت کے ساتھ معاشرہ نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی کہانی کامیابیوں اور کامرانیوں کی کہانی ہے۔ ہم دنیا کو اپنی کامیابیوں سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں ۔ہم نے 70 سالوں میں بہت سی کامیابی حاصل کی ہے اگرچہ بہت سے مواقع ضائع بھی کئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں متاثرہ سے فاتح تک کا سفر طے کیا ہے۔

ہمیں قومی سطح پر نیا مائنڈ سیٹ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہر وقت یہ سوچنا اور الانپنا کہ یہاں ہر چیز کا ستیاناس اور بیڑہ غرق ہے درست رویہ نہیں۔ امریکا اور یورپ سمیت دنیا بھر کے ممالک کو مخلتف چیلنجز اورمسائل کاسامنا ہے لیکن اگرہم گلاس کو آدھا بھراہوا دیکھنے کی بجائے آدھا خالی دیکھنے کی عادت میں مبتلاہو جائیں گے تو محض مایوسی اور فرسٹریشن کا شکار ہوں گے لیکن اگر ہم کسی بھی معاملے کے مثبت پہلوؤں پر نظررکھیں تو اپنی محنت سے ایک دن آدھے خالی گلاس کو بھی بھرنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم دنیا میں ایک بہترین قوم ہیں جس نے ایسے عالم میں اپنا سفر شروع کیاکہ سرکاری دفاتر میں آزادی کے وقت میز کرسیاںتک نہ تھیں اور کاغذوںکو آپس میںجوڑنے کے لئے کامن پنوں کی بجائے کیکر کے کانٹے استعمال ہوتے تھے۔ آج ہم دنیا کی ساتویں آٹھویں قوت ہیں تو کچھ تو ہم نے ایسا ہے جس کی بدولت ہم ساتویں ایٹمی طاقت بننے میں کامیاب ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ آزادی کے وقت پاکستان میں کوئی صنعت نہ تھی جبکہ بھارت میں سٹیل مل موجود تھی جو صنعتی ترقی کی علامت ہے لیکن آج پاکستان میں شوگر اور سیمنٹ پلانٹس ، گاڑیوں کی مینوفیکچرنگ کے پلانٹ سے لے کرفضائوں کو چیرنے والے جے ایف 17 تھنڈر تک بن رہے ہیں ۔پاکستان ٹیلی کام کے شعبے میں بہت آگے نکل چکا ہے۔ چین سے انفارمیشن ہائی وے بچھائی جا رہی ہے۔

2013ء میں جب اقتدار سنبھالا تو پاکستان میں ٹو جی رائج تھا جبکہ آج ہم ان ممالک میں شامل ہو تے ہیں جو فائیو جی کے ابتدائی استعمال کنندگان میں سے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ٹیک آف کرنے کے تیسرے موقع سے نوازا ہے، پہلا موقع ساٹھ کی دہائی میں ملا،دوسرا90 کی دہائی میں، من موہن سنگھ نے سرتاج عزیز سے ایس آر اوز حاصل کئے اور کہا کہ وہ اپنے ملک میں پاکستان جیسی اصلاحات کرنا چاہتے ہیں اور ایسا کر کے وہ ہم سے آگے نکل گئے، بنگلہ دیش نے بھی بھارت سے وہی اصلاحات لے کر نافذ کیں اور کامیاب ہوا، لیکن یہ دہائی سیاسی عدم استحکام کی نذر ہو گئی۔

انہوں نے کہاکہ اقتصادی ترقی چوکے چھکوں کا کھیل نہیں بلکہ ایک ٹیسٹ میچ ہے جس کے لئے امن و استحکام اور تسلسل بہت ضروری ہے، ہمیں غور کرنا ہوگا کہ دنیا کے بہت سے ممالک جو ہم سے پیچھے تھے کیوں ہم سے آگے نکل گئے۔ اگر کوئی بیج زمین میں لگا کر روزانہ ہل چلاتے رہیں گے تو وہ کبھی نہیں اگ سکے گا لیکن اگر اسے کدالوںسے اکھیڑنے کی بجائے کھاد دے کر اور آبیاری کرکے اگنے دیں گے تو وہ تناور درخت بنے گا۔

انہوں نے کہاکہ چین کی فی کس آمدنی ہم سے کہیں کم تھی لیکن آج ہم سے کہیں زیادہ ہے۔ بنگلہ دیش کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 33ارب تک پہنچ چکے ہیں جکبہ ہمارے 18 ارب ڈالر ہیں جبکہ بنگلہ دیش ہم سے کہیں پیچھے تھا ، کب تک ہم دوسرے ملکوں کو اوور ٹیک کرتے دیکھتے رہیں گے۔ انہوں نے کہاکہ 20 ویں صدی سیاسی نظریات کی صدی تھی جبکہ 21 ویں صدی اقتصادیات کی صدی ہے۔

اب سیاسی نظریات کی بحث سے ہٹ کر اقتصادی خوشحالی کے راستے پر گامزن ہونے سے قوم ترقی کرتی ہے۔قوموں کا دفاع محض ٹینکوں، توپوں اور میزائلو ںسے نہیں ہوسکتا اگر ایسا ممکن ہوتا تو سوویت یونین کاشیرازہ کبھی نہ بکھرتا۔ معیشت کمزور ہوئی تو سوویت یونین صفحہ ہستی سے غائب ہو گیا ۔پاکستان کو قدرت نے تیسرا موقع دیا ہے۔ 2013ء میں پاکستان کی حالت یہ تھی کہ کوئی پاکستان میں 10 ڈالر لگانے کو تیار نہ تھا، 20، 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ معمول کی بات تھی اور بین الاقوامی برادری پاکستان کو پتھر کے دور میں قرار دے رہی تھی، لوڈ شیڈنگ کا یہ حال تھا کہ یو پی ایس کی بیٹری تک چارج نہیں ہوتی تھی کہ بجلی دوبارہ چلی جاتی تھی، ایسے حالات میں چین کی سرمایہ کاری سے دنیا پاکستان کی طرف متوجہ ہوئی، ہمارے سکیورٹی اداروں نے دہشت گردی ختم کرنے کا عزم کیا اور آپریشن ضرب عضب اور رد الفساد ہم نے خود اپنے بجٹ سے کئے، یہ اس لئے ممکن ہوا کیونکہ ٹیکس محاصل دو کھرب سے بڑھا کر چار کھرب کئے گئے اگر یہ وسائل دستیاب نہ ہوتے تو امریکا سے بھیک مانگتے رہتے، ہم نے دہشت گردی کا خاتمہ اپنے قومی بجٹ سے اور افواج پاکستان کی قربانیوں کی بدولت ممکن کر دکھایا، ایک وقت وہ تھا جب دہشت گردوں نے ریاست کا محاصرہ کر رکھا تھا اور آج ریاست نے دہشت گردوں کو نرغے میں لیا ہوا ہے۔

اگر یہ موقع بھی ہم نے گنوا دیا تو تاریخ اور آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو نئے عہد کے لئے تیار کرنا ہے، اب ہر چیز ڈیجیٹل ہے، ہمیں علم کی طاقت سے آگے بڑھنا ہے، یہ جدت کا دور ہے جو اس کو سمجھے گا وہ باقی رہے گا، ہمیں جدت کی دنیا میں نئے علم کی تخلیق کے ذریعے آگے بڑھنا ہے، تسخیر کائنات کا مشن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سونپا ہے اس کا بھی حساب دینا پڑے گا، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کائنات کے مطالعے اور مشاہدے کا حکم دیا ہے لیکن ہم نے اس کو چھوڑ دیا ہے، ایک وقت تھا جب فادر آف الجبرا ابن رشد، بو علی سینا، البیرونی، فارابی سمیت تحقیق، تفکر اور تدبر مسلمانوں کا خاصا تھا اور انہوں نے علم کے انقلاب کی بنیاد رکھی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نئے شعبوں میں سینٹر آف ایکسی لینسز کی بنیاد رکھ رہی ہے، یہ چوتھے صنعتی انقلاب کی بنیاد ہے، اس سے ہم دنیا کو ان شعبوں میں لیڈرز دے سکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس سے قبل سینٹر آف میتھیمیٹیکل سائنسز کی بنیاد پیاس میں رکھی جا چکی ہے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس سائبر سکیورٹی اور آٹوبیشن و روبوٹکس کے سنٹر آف ایکسلینس بھی قائم کئے جارہے ہیں تاکہ پاکستان کو آنے والے دور کے تقاضوں اور چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیار کیا جا سکے۔

ڈیجیٹل اکانومی کا ویژن ہم نے پیش کیا۔ 2010ء میں لیپ ٹاپ سکیم شروع کی گئی تو کہا گیا کہ یہ سیاسی رشوت دی جا رہی ہے حالانکہ اگر سیاسی رشوت دینا ہی ہوتی تو صرف اپنی پارٹی کے نوجوانوںکو لیپ ٹاپ دیتے۔ ہم نے ٹیکنالوجی کے شعبے پر خصوصی توجہ دی تاکہ نوجوان ان شعبوں میں مہارت پیدا کرکے علم کے ذریعے مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کو بحال کریں اور علم کے میدان میں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ کر ملک وقوم کا نام روشن کریں۔

وزیر داخلہ نے کہاکہ دنیاآج پاکستان کو ابھرتی ہوئی معیشت قرار دے رہی ہے۔ ہمیں اس تسلسل کو برقرار رکھنا ہے ۔ قبل ازیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایئر یونیورسٹی کے چانسلر ایئر وائس مارشل فائز امیر نے زخمی ہونے کے باوجود تقریب میں شرکت کے لئے آمد پر وزیر داخلہ کاخیر مقدم کیا ۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کی 22.2 فیصد آبادی انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے ۔

صرف موبائل فون نہیں بلکہ آج کی دنیا کے بہت سے روز مرہ امور سائبر سسٹم سے چلتے ہیں اور سائبر کی دنیا میں نت نئی تبدیلیاں اور ایجادات ہو رہی ہیں۔ اب دنیا میں انتخابات کے نتائج پر بھی سائبر کے ذریعے اثر انداز ہوا جاسکتا ہے۔ ہمیں اپنے سسٹم اور سائبر سپیس کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے سٹیٹ سپانسرڈ خطرات بھی موجود ہیں۔ یہ سنٹر قائم کرنا درست سمت میں قدم ہے۔ انہوں نے بتایاکہ مختلف یونیورسٹیوں کے اشتراک سے یہ سنٹر قائم کیاگیا اور اس کے تحت 4 سالہ بی ایس پروگرام شروع کیا جائے گا۔ بعدازاں وزیر داخلہ نے تختی کی نقاب کشائی کرکے سنٹر کاافتتاح کیا اور اس حوالے سے نمایاں خدمات سر انجام دینے والے سکالرز کو شیلڈز بھی دیں۔