مسلم لیگ ن نے اداروں کو سیاسی کرنے کی روایت نہ بدلی

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 4 لیگی کارکنان کو جج تعینات کرنے کی منظوری دےدی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 21 مئی 2018 11:01

مسلم لیگ ن نے اداروں کو سیاسی کرنے کی روایت نہ بدلی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 21 مئی 2018ء) : ججز پر سیاسی ہونے کا الزام عائد کرنے والی حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کا اپنا چہرہ بھی بے نقاب ہو گیا ، مسلم لیگ نے نے اداروں کو سیاسی کرنے کی اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے 4 لیگی کارکنان کو جج تعینات کرنے کی منظوری دے دی ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 4 لیگی کارکنان کو آزاد کشمیر میں جج تعینات کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔

اس ضمن میں سمری کشمیر کونسل کو ارسال کر دی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹ میں بتایا کہ شاہد خاقان عباسی نے کشمیری کونسل آزاد حکومت کی سفارش پر 4 لیگی کارکنان کو ہائیکورٹ آزاد کشمیر میں جج تعینات کرنے کی منظوری دے دی،ہائیکورٹ میں جج کے عہدے کے لیے نامزد ہونے والوں میں رانا سجاد ایڈووکیٹ ، رضا علی خان ، سردار اعجاز ، چودھری منیر اور خالد یوسف شامل ہیں۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق رانا سجاد ایڈووکیٹ کو کشمیر کے وزیر اطلاعات مشتاق منہاس کی سفارش پر نوازا گیا ، رانا سجاد عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے اُمیدوار بھی تھے، رانا سجاد پر مبینہ طور پر رواں سال اپنے آبائی حلقے میں حکومتی خزانے سے اسکیموں کی بندر بانٹ کے الزامات بھی ہیں، رضا علی خان کی نامزدگی وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کی سفارش پر ہوئی، رضا علی خان کو وزیراعظم راجہ فاروق حیدر کا چہیتا ہونے کی بنیاد پر ایڈووکیٹ جنرل بھی لگایا گیا، جبکہ سردار اعجاز کی نامزدگی صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کی سفارش پر کی گئی۔

سیشن جج چودھری منیر کو گجر برادری کے ممبران اسمبلی کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جنہیں وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے گجر برادری کو خوش کرنے کے لیے ہائیکورٹ کا جج لگوایا۔ نئے نامزد ہونے والے جج خالد یوسف ایڈووکیٹ سینئیر وزیر طارق فاروق کی سفارش پر تعینات کیے گئے ہیں۔ خیال رہے کہ پانامہ کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے بعد سے ہی مسلم لیگ نے عدلیہ کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا جس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ججز سیاسی ہو چکے ہیں اور نواز شریف سے کوئی انتقام لیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کے عدلیہ مخالف بیانات اور تقاریر پر ان کے کئی ساتھیوں نے اس حکمت عملی کی مخالفت کی اور مسلم لیگ کو خیرباد کہہ دیا۔