بلوچستان اسمبلی کااجلاس دوگھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا ،بجٹ پر بحث جاری

اتوار 20 مئی 2018 20:50

ْK کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 مئی2018ء) بلوچستان اسمبلی کااجلاس اتوار کو اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ حمید خان درانی کی صدارت میں دوگھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا اجلاس میں بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے صوبائی وزیر سیدآغا رضا نے کہا کہ پچھلے 18سالوں سے ہزارہ برادری کا خون بہایا جارہا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سب سے زیادہ مشرف دور میں ہمارا خون بہایا گیا ملک میں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جارہا ہے جس نے ضیاء کا ساتھ دیا آج وہ جمہوریت کے چمپئن بنے ہوئے ہیں جمہوریت جیسی بھی ہو اس کو پروان چڑھنے دیا جائے ایک سازش کے تحت سیاست کو بدنام کیا جارہاہے ہمارے اپنے ارکان اسمبلی نے کہا کہ سیاستدان کرپٹ ہیں انہوں نے کہا کہ 8ہزار سے زائد لوگ این آر او سے مستفید ہوئے جن میں سے صرف 37سیاستدان تھے عوامی نمائندے اقدامات کریں تو عدالت سوموٹو لے لیتی ہے ہمیں آزادی سے کام کرنے نہیں دیا جارہا اداروں کو آپس میں ٹکراؤ بند کرتے ہوئے ایوان کے تقدس کو بحال کرنے کی ضرورت ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ 352ارب روپے کے بجٹ میں 88ارب ترقیاتی مد جبکہ 264ارب غیر ترقیاتی مد میں رکھے گئے ہیں اگر یہی صورتحال رہی تو 2025ء میں ہمارے پاس ترقیاتی اسکیموں کیلئے ایک روپیہ نہیں ہوگاجو مسائل کئی سالوں سے چلے آرہے ہیں ہم سے یہ امید کی جارہی ہے کہ چار مہینے میں جادو کی چھڑی سے ان مسائل کو حل کردیں گے جوکہ ممکن نہیں کوئٹہ کی طرف آبادی کا دباؤ بڑھ رہا ہے اسے روکنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اختیارات کو نچلی سطح پرمنتقل کرنا ناگزیر ہوچکا ہے کوئٹہ میں فرانزک لیبارٹری کے لئے زمین اور رقم مختص ہے لیکن اس میں بھی لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے واقعات میں معذور ہونے والے افراد کو بھی شہداء کی طرز پر معاوضہ دیا جائے۔اجلاس میں صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی نے پوائنٹ آرڈر پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہم نیشنل پارٹی کے دوستوں کو ایوان میں واپسی پر خوش آمدید کہتے ہیں ایوان میں آکر انہوں نے سیاسی ہونے کا ثبوت دیا ہے جبکہ کچھ لوگ آج بھی اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں۔

اجلاس میںبجٹ پر بحث کرتے ہوئے رکن اسمبلی ڈاکٹرشمع اسحاق نے کہا کہ بجٹ تو پیش ہوتے رہتے ہیں اگر ہم 5سالوں کا بجٹ اور ان کا پی ایس ڈی پی اٹھاکر دیکھیں تو ان میں اور اس بجٹ میں کوئی خاص فرق نہیں ہے وفاق بلوچستان کو رائلٹی کے مد میں کچھ نہیں دیتا آئین کہتاہے کہ جس جگہ سے گیس نکلتی ہے سب سے پہلے اس علاقے کوگیس فراہم کی جائے بعد میں دوسرے علاقوں کو دی جائے سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور حکومت میں نجی کمپنی نے 50میگاواٹ کاپاور پلانٹ لگانے کیلئے گیس کی درخواست کی جسے وفاق نے مسترد کردیاجس کی وجہ سے آج بلوچستان کو لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل بلوچستان سے گیس نکال رہے ہیں لیکن سماجی بہبود کیلئے کام نہیں کرتے بلوچستان کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں آخری نمبر ہماری پسماندگی کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جدیدٹیکنالوجی کے ذریعے بلوچستان کی معدنیات کا سروے کیا جائے تاکہ صوبے کی آمدن بڑھائی جاسکے۔ صوبائی وزیر میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ بلو چستان کا پہلا بجٹ 36کروڑ تھا جبکہ آج صرف غیر ترقیاتی مد میں 264ارب روپے رکھے گئے ہیں ہمیں غیرترقیاتی اخراجات پر قابو پانا ہوگا بصورت دیگر ترقیاتی بجٹ ختم ہوجائے گا انہوں نے کہا کہ 2004ء میں گوادر ائیر پورٹ کیلئے زمین مختص کی گئی لیکن آج تک وہاں خاردار تار لگانے کے علاوہ کچھ کام نہیں ہواہم بلوچستان اور پاکستان کے عوام کی خوشحالی چاہتے ہیں لیکن ہمارے مسائل جوں کے توں ہیں مرکز نے پانچ سال میں 9ہزار ارب خرچ کئے جن میں سے صرف 25سو ارب بلوچستان کیلئے مختص کئے گئے وہ بھی ہر سال لیپس ہوجاتے تھے ہماری اسکیمات پورا سال تاخیر کا شکار رہتی تھیں اور کچھ اسکیمات گزشتہ پانچ سال سے ریفلیکٹ ہورہی ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان نصف پاکستان ہے لہذا اسے نصف بجٹ دیا جاناچاہئے وفاقی وزیر احسن اقبال سے جب پوچھا کہ سی پیک میں بلوچستان کیلئے کیا کام ہوا ہے وہ جواب دینے سے قاصر تھے میں حلفیہ کہہ سکتا ہوں کہ سی پیک میں بلوچستان میں ایک اینٹ تک نہیں لگی ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے منصوبے کو سی پیک کے روڈ کا نام دیدیا گیا پانچ سال سے این ایف سی ایوارڈ نہیں ہوا جس سے مشکلات کا سامنا ہے اگر بلو چستان میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر منصوبے شروع نہیں کئے گئے تو لوگ ہجرت پر مجبور ہونگے ۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال سے ہر سال 50ارب لیپس کردیئے جاتے ہیں چار سال کے دوران 200ارب روپے لیپس ہو ئے کچھی واٹرسپلائی فیز ٹو کا پچاس فیصد بھی مکمل نہیں ہوا اگر اسی رفتار سے کام جاری رہا تو پانی کے منصوبے آئندہ پچیس سال میں مکمل ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ مشرقی بائی پاس روڈ پر کام بھی سست روی کا شکار ہے سڑک کی تعمیر کیلئے 35کروڑ درکار ہیں جبکہ صرف پانچ کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ہم گزشتہ چار سالوں سے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ایک سال سے پی ایس ڈی پی بند تھا ایم پی اے کے اپنے فنڈز بھی بند ہیں جس کی وجہ سے کوئی کام نہیں ہوسکا رہی سہی کسر الیکشن کمیشن کی پابندی نے پوری کردی۔

نیشنل پارٹی کی یاسمین لہڑی نے کہا کہ بجٹ انتہائی اہم مسئلہ ہے لیکن حکومتی ارکان کا رویہ غیر سنجیدہ ہے بلوچستان مسائل اور پسماندگی میں گرا ہوا ہے دنیا بھر میں اسوقت معیشت کا مقابلہ ہے پاکستان میں بھی اداروں کا تناؤ اسی وجہ سے ہے کہ معیشت کو کون قابو کریگا ۔انہوںنے کہا کہ ہمارے ہاں سنجیدگی اور کمٹمنٹ کا فقدان ہے جس کی وجہ سے آج ہم پوری دنیا میں کشکول اٹھائے گھوم رہے ہیں بلوچستان وفاق سے بھیک مانگتا ہے اور مرکز عالمی اداروں سے ہم اپنے وسائل پر اکتفا نہیں کر رہے صرف بلوچستان میں سیندک ریکو ڈک جیسے اہم وسائل ہیں اگر انہیں استعمال کیا جائے تو ہمیں معاشی مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن ہمارے ہاں مخلصی نہیں ہے چیزیں بدنیتی پر مبنی ہیں محکمہ پی اینڈ ڈی سیاسی مداخلت کا شکار ہے جس کی وجہ سے کام نہیں ہوپاتے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے بلوچستان کے لوگوں کو بلوچستان پبلک سروس کمیشن اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا تحفہ دیا تھا جس کی وجہ سے آج بلوچستان کے نوجوانوں کو میرٹ پر روزگار مل رہا ہے۔رکن صوبائی اسمبلی مفتی گلاب کاکڑ نے کہا ہے کہ سابق دور حکومت میں ہمارے ساتھ جو رویہ رکھا گیا اسکی نشاندہی بھی کی لیکن ہمارے علاقوں کیلئے فنڈز بھی نہیں دیئے گئے ہر بجٹ پر ہم احتجاج کرتے تھے مگر جمہوری روایات کو مد نظر رکھ کراحتجاج کرتے تھے کبھی بھی آپے سے باہر نہیں ہوتے اور نہ ہی ایوان کے تقدس کو پامال کرتے تھے مگر بدقسمتی سے دو ماہ کی اپوزیشن میں رہ کر ساتھیوں نے جو نازیبا الفاظ استعمال کئے سڑکوں پر بھی اس طرح زبان استعمال نہیں کرتے عوام نے اس لئے ووٹ دیئے کہ ان لوگوں میں اصلیت ہو عوام نے اعتماد کیا مگر کچھ ارکان نے عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا جو ہمیں درس دیتے تھے وہ برداشت کیوں نہیں کرسکے پانچ سال کے دوران انتہائی ظالمانہ رویہ اپوزیشن نے برداشت کیامگر موجودہ حکومت نے متوازن اور عوام دوست بجٹ پیش کیا وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے مختصر مدت میں عوامی بجٹ پیش کیا جس پر ہم انہیں مبارکباد دیتے ہیں۔

رکن صوبائی اسمبلی میر اظہار حسین کھوسہ نے کہا ہے کہ پانچ سال کے دوران ہر بجٹ میں ہمارے علاقوں کو مکمل نظر انداز کیا گیا اور کوئی میگا پروجیکٹ نہیں دیا گیا زرعی حوالے سے نصیرآباد اور جعفرآباد منفرد مقام رکھتے تھے مگر زرعی شعبے کو فعال کرنے کیلئے کوئی خاص اقدامات نہیں کئے گئے چھوٹی چھوٹی اسکیمات سے ہمارے مسائل حل نہیں ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم موجودہ وزیراعلیٰ کو قصور وار نہیں سمجھتے بلکہ ہم سب قصور وار ہیں بدقسمتی سے سابق دونوں حکومتوں میں صرف تین اضلاع کو اہمیت دی گئی باقی صوبے کو نظر انداز کیا گیا اگر ہم مرکز سے گلہ کرتے ہیں کہ صوبے کے ساتھ برابری نہیں کی تو ہم بھی صوبے میں گلہ رکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے بلوچستان سندھ اور پنجاب سے ملانے والی شاہراہ کو بھی فنڈز نہیں دیا گیا اس مرتبہ بھی صرف 10کروڑ روپے آن گوئنگ اسکیم میں ڈال دیئے ۔

انہو ں نے کہا کہ پٹ فیڈر کینال لائنگ پر توجہ نہیں دی گئی اور محض چالیس کروڑ روپے رکھے گئے ہیں اس سے لائننگ صاف نہیں ہوتی اور پٹ فیڈر کینال کومکمل نظر انداز کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہر وزیراعلیٰ نے بجٹ کے وقت دلاسے دیئے مگر بعد میں کچھ نہیں ملا ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعلیٰ نے میڈیکل کالج دیدیا جس پر ہم انکے شکر گزار ہیں۔

جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ اسوقت ملک جس کیفیت سے دوچار ہے اور آنے والے وقت اوردنوں میں یہ معلوم نہیں کہ کیا واقعات رونما ہونگے وزیراعلیٰ کو مبارکباد پیش کرتے ہیں اور شکر گزار ہیں کہ چار ماہ میں جو خدشات ظاہر کئے جارہے تھے کہ موجودہ حکومت آنے کے بعد جمہوریت کو لپیٹاجائے گا اور اسمبلیاں توڑدی جائیں گی لیکن چار ماہ میں جمہوریت اور جمہوری روایات کو برقرا ر رکھا اور چارماہ میں جمہوریت کے نمونے بھی دکھادیئے اعتراف کرتے ہیں کہ عوامی نمائندے کی حیثیت سے وزیراعلیٰ نے بہت کام کئے اور عوام کے ساتھ رابطے میں رہے جمہوری کا حسن یہ ہے کہ تمام جمہوری قوتوں کو ساتھ لیکر چلیں ۔

انہوں نے کہا کہ اسوقت ملک میں جوہورہا ہے اور کن حالات سے گزر رہے ہیں اس ملک کیلئے کیا مشکلات پیدا ہونگی تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہے اور اپنی جماعت کو پاکستان کی خالق سمجھتے ہیں لیکن آج اس پاکستان کے بارے میں وہ جو الزامات لگارہے ہیں اوراس ملک کو مشکلات سے دوچار کر رہے ہیں اختلاف رائے جمہوریت میں ہونی چاہئے چاہے اداروں کے خلاف ہو بیورو کریسی کے خلاف ہو مگر جمہوریت کے خلاف کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے بھار ت جو بین الاقوامی سطح پر واویلا کر رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے اور خود کو مظلوم ثابت کر رہا ہے مگر کے سابق حکمران گواہی دے رہے ہیں کہ بلوچستان اور پاکستان دہشت گرد ملک ہے اور دہشت گردی کو پھیلاتے ہیں اگر کوئی وزیراعظم بن کر بین الاقوامی فورم پر بات کرے تو کیا وہ یہ سمجھیں گے کہ پاکستان دہشتگردی میں ملوث ہے سیاسی رویے پر ؂ غور کرنا چاہئے ملک کو کس طرف لے جارہے ہیں غلطیاں ہوتی ہیں ملکی اداروں سے سب سے زیادہ شکایت ہماری ہے مگر اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ہم ہی اپنے ملک کے خلاف بولیں تردید اورمخالفت کرتا ہوں کہ پچیس سال سے ایوان میں ہوں اور ہم شروع دن سے کہہ رہے ہیں کہ مرکز نا انصافیاں کر رہا ہے پچیس سال بعد بھی جو بجٹ ہمیں نصیب ہوا ہے اس میں وفاق کی نا انصافیاں برقرار ہیں 93ء سے لیکر ابتک زیادتیوں کا ذکر کر رہا ہوں کہ سوئی سدرن گیس ریکوڈک سیندک گوادر میں ہمارے ساتھ نا انصافیاں ہورہی ہیں جو پہلے ہوتی تھیں مگر کوئی سننے والا نہیں ہے جو اقتدار میں آکر بلوچستان کے عوام سے معافی مانگتے ہیں اور پھر اپنا کام نکال کر بلوچستان کیلئے کچھ نہیں کرتے ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ جاری ہے انہوں نے کہا کہ پانچ سال بلوچستان میں حکومت کی جو کارکردگی کے حوالے سے دعوے اور وعدے کر رہے تھے اس میں صداقت نہیں ہے ہر سال بجٹ کے بعد پچاس ارب روپے لیپس ہوتے تھے اور اپوزیشن کو بھی فنڈز نہیں دیئے گئے خود کو جمہوریت کا چیمپیئن سمجھتے اور جمہوریت کی پاسداری نہیں کرتے بدتمیزی کا ریکارڈ قائم کردیا ایک طرف پنجاب کے وزیراعظم کی گود میں بیٹھ کر مراعات لیتے تھے اور یہاں ایک پنجابی خاتون کو گالی دیکر کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے بجٹ کا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہے اسی حکومت نے وہ کیا اور اپوزیشن کو اعتماد میں لیکر بجٹ بنایا۔