پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان فلسطینیوں کے قتل عام کی شدید مذمت کرتا ہے ، حالیہ قتل عام فلسطینی عوام کے ساتھ 70سالہ ناانصافیوں میں ایک اور بد نما باب کا اضافہ ہے،

او آئی سی کے رکن ممالک مشکل کی اس گھڑی میں اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں اور ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں، ہمیں موثر جوابی پائیدارحکمت عملی تیار کرنا ہوگی،او آئی سی کا سربراہ اجلاس فلسطینیوں کے خلاف جبرو استبداد کے حوالے سے کلیدی پیغامات دینے اورجوابی حکمت عملی کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، ہم اس وقت تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑے ہیں،ہمیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور حمایت کرنی چاہیئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا اسلامی تعاون تنظیم کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب

ہفتہ 19 مئی 2018 19:48

پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان فلسطینیوں کے قتل عام کی ..
استنبول ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 مئی2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اسرائیلی فوج کے جبر و استبداد کا نشانہ بننے والے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر تے ہوئے اعادہ کیا ہے کہ پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے، پاکستان اسرائیلی فورسز کی طرف سے جاری قتل عام اور بے گناہ فلسطینیوں کو نشانہ بنائے جانے کے واقعات کی شدید مذمت کرتا ہے اور او آئی سی کے ساتھ کھڑا ہے۔

ہفتہ کو اسلامی تعاون کی تنظیم کے ساتویں غیر معمولی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ہم اس وقت تاریخ کے نازک ترین موڑ پر کھڑے ہیں۔ہمیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور حمایت کرنی چاہیئے کیونکہ یہ انتخاب نہیں ضرورت کا سوال ہے اوراس سے بڑھ کر اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ بین الاقوامی قانون کا بلا امتیاز نفاذ ہو۔

(جاری ہے)

وزیر اعظم نے او آئی سی ممالک پر زور دیا کہ ہمیں موثر جوابی پائیدارحکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔انھوں نے کہا کہ دوسری جانب ہمارے اپنے ممالک اور عوام کے مابین یکجہتی اور اتحاد کا اعادہ اور تجدید بہت ضروری ہے۔ہمیں اپنے سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھنا ہو گا۔اس سے بھی بڑھ کر اہم یہ ہے کہ مختلف کثیرالجہت شعبوں میں پہلے سے مرتب کی گئی او آئی سی کی حکمت عملیوں کو نیک نیتی کے ساتھ نافذالعمل بنانا ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ایسے اقدامات کے ذریعے ہی بیرونی دبائو کا مقابلہ اور اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی قسمت کے فیصلے خود کرنا ہوں گے۔وزیر اعظم نے تجویز دی کہ سفارتی محاذ پراپنی جدوجہد جاری رکھنی ہو گی کہ اقوام متحد کی سلامتی کونسل اپنی قراردادوں پر عمل کرانے کی اپنی ذمہ داری کو پورا کرے۔او آئی سی کو اپنے فیصلوں پر عملدرآمد پورا نہ کرنے پر احتساب کا بھی مطالبہ کیا۔

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ او آئی سی اراکین کو بھی سمجھناچاہیئے کہ اگرکونسل اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کی ذمہ داری پوری نہ کرے توکونسل کی ساکھ پر بھی سوال اٹھ سکتے ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ ہمیں کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد میں دوہرے معیار کو بھی مسترد کرنا چاہئے۔انھوں نے کہا کہ اگر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل یا خواہاں نہ ہو،انھیں چاہئے کہ فیصلوں کورد یا نظر ثانی کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تحریک لائے اور بین الاقوامی قانون کی خلاف وزیوں کی احتسابیت کو یقینی بنائیں۔

انھوں نے قابض فورسز کے رویوں کو تبدیل کرنے کے لئے او آئی سی کی اقتصادیاور دیگر مناسب کاروائیوں سے متعلق فیصلوں پر عملدر آمد کی ضرورت پر بھی زور دیا۔وزیر اعظم نے یہ بھی تجویز دی کہ حالیہ غیر قانونی کارروائیوں پر بین الاقوامی عدالت انصاف کی قانونی رائے کے حصول کو بھی مد نظر رکھا جائے۔ علاوہ ازیں انھوں نے کہا کہ او آئی سی کے رکن ممالک کو چاہئے کہ فلسطینی کاز کے لئے،جاری قتل عام اور ریاستی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے پائیدار حمایت کے حصول کے لئے دیگر ممالک اور گروپوں تک بھی پہنچیں اوربین الااقوامی متفق شدہ قواعد کی بنیاد پر ایک آزاد اورخود مختار فلسطینی ریاست کی آزادی کے لئے جدوجہد کریں جس کا دارالحکومت القدس شریف تھا۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ امریکہ عالمی مطالبوں کے باوجود یروشلم کو اسرائیل کا نام نہاد دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارتخانہ القدس منتقل کرنے کے فیصلوں پر نظر ثانی نہیں کر رہا۔انھوں نے کہا کہ او آئی سی یکطرفہ فیصلوں کو مکمل مسترد اور ان کی مذمت کرتی ہے۔انھوں نے کہاکہ او آئی سی کے رکن ممالک مشکل کی اس گھڑی میں اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں اور ان کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ حالیہ قتل عام فلسطینی عوام کے ساتھ 70سالہ ناانصافیون میں ایک اور بد نما باب کا اضافہ ہے۔وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ترکی کے صدر طیب اردگان کی خصوصی دعوت پر او آئی سی سربراہ اجلاس میں شریک ہیں۔انھوں نے کہا کہ او آئی سی کا سربراہ اجلاس فلسطینیوں کے خلاف جبرو استبداد کے حوالے سے کلیدی پیغامات دینے اورجوابی حکمت عملی کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

انھوں نے یہ اجلاس فلسطینی عوام کے لئے انصاف اور برابری کی راہ متعین کرنے اوربغور جائزہ لینے کا موقع فراہم کرتا ہے اورفلسطینی عوام کے مابین اپنی صفوں مین اتحاد پیدا کرنے پر زور دیتا ہے۔وزیر اعظم نے گزشتہ دسمبر میں منعقد ہونے والے غیر معمولی اجلاسوں میں رکھے گئے اپنے دو سوالات بھی دہرائے۔پہلا سوال یہ ہے کہ ہم کیسے اس پر قابو پا سکتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے اپنی یکجہتی اور اتحاد کو ٹھوس شکل نہیں دی۔

یہ نہ صرف فلسطین بلکہ دیگر مشترکہ مسائل کے لئے بھی حقیقت ہے۔دنیا اسی طرز کے دوسرے المیہ کی بھی گواہ ہے،گزشتہ 70سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام بھارتی تسلط اور بربریت و جبرو استبداد کے سائے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اپنے حق خود ارادیت حصول سمیت بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف مسلسل جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

فلسطین کے مسئلہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو مسلسل نظراناز کیا جارہا ہے اور جدوجہد آزای کو ہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔وزیر اعظم نے کہا کہ سیسی،اقتصادی ،موصلاتی اور تکنیکی کمزوریوں پر قابو پائے بغیر اپنے بھائیوں خواہ وہ کشمیر میں ہوں یا فلسطین میں ہم ان کا بھرپور دفاع نہیں کر سکیں گے۔انھوں نے کہا کہ دوسرا سوال یہ تھا کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیئی کیا ہمیں بین الاقوامی قانون پر عملدر آمد میں ناکامی اور ریاستی دہشت گردی پر اکتفا کر لینا چاہیئی یہ واضح ہے موجودہ حالات کو تبدیل کے لئے صرف غصہ کا اظہار ہی کافی نہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان میں جمعہ کو فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتہ کا دن منایا گیا اور مساجد میں فلسطین کی آزادی کے لئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں۔وزیر اعظم نے غیر معمولی اجلاس بلانے پر ترک صدر کے اقدام کو سراہا۔