آل پاکستان بزنس فورم کا ملکی تجارتی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ پر اظہار تشویش

صرف برآمدات میں ریکوری ہی بیرونی شعبہ پر دبائو میں کمی لا سکتی ہے ،صدر ابراہیم قریشی

جمعہ 18 مئی 2018 21:38

آل پاکستان بزنس فورم کا ملکی تجارتی خسارے میں خطرناک حد تک اضافہ پر ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 مئی2018ء) آل پاکستان بزنس فورم (اے پی بی ایف) نے ملکی تجارتی خسارے میں خطرناک حد تک اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے جو موجودہ مالی سال 2017-18ء کے پہلے 10 ماہ کے دوران 14 فیصد اضافہ سے 30.245 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ آل پاکستان بزنس فورم کے صدر ابراہیم قریشی نے کہا کہ صرف برآمدات میں ریکوری ہی بیرونی شعبہ پر دبائو میں کمی لا سکتی ہے کیونکہ تجارتی خسارہ جولائی ۔

اپریل کے عرصہ میں 26.44 ارب ڈالر ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درآمدات اور برآمدات میں بڑھتا ہوا فرق کرنٹ اکائونٹ بیلنس پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ مالی سال 2018ء کے پہلے 9 ماہ میں 12.03 ارب ڈالر تک بڑھ چکا ہے جو سال بہ سال 51 فیصد کے قریب ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ جولائی ۔

(جاری ہے)

مارچ کے عرصہ میں جی ڈی پی کی آٹھ سالہ بلند شرح 5 فیصد تک بڑھ گیا ہے۔

اپریل میں برآمدات میں 4 فیصد کمی آئی جو مارچ میں 2.23 ارب ڈالر تھیں۔ درآمدات بھی اپریل میں 3 فیصد کم ہوئی جو گزشتہ ماہ 5.28 بلین ڈالر تھیں۔ اپریل میں تجارتی خسارہ 2 فیصد کم ہوا جو 3.049 ارب ڈالر تھا۔ ابراہیم قریشی نے کہا کہ حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے روپے کی قدر اور ٹیرف و نان ٹیرف رکاوٹوں میں کمی جیسی پالیسی سطح پر مداخلت سے برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی جیسے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔

گزشتہ سال دسمبر میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 10 فیصد کمی آئی جس سے برآمد کنندگان کو اپنی عالمی مسابقت بہتر بنانے کا موقع ملا۔ حکومت نے سینکڑوں غیر ضروری درآمدات پر ریگولیٹری ڈیوٹی بھی عائد کی ہے۔ انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ رواں مالی سال میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 17 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ انہوں نے حکومت سے کہا کہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مزید کمی کو روکنے کے لئے اقدامات کرے۔

ابراہیم قریشی نے کہا کہ سب سے بڑے درآمدی آئٹم تیل کی عالمی مارکیٹ میں کم قیمتوں کے باوجود پاکستان کو تجارتی خسارہ کا سامنا ہے۔ تجارتی خسارے میں اضافہ کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں ساختی عوامل اور غلط پالیسیاں شامل ہیں۔ مشرق وسطیٰ و مشرقی ایشیاء کے برعکس پاکستان نے برآمدات کو فروغ دینے کی بجائے درآمدی متبادل کی روائتی پالیسی کو اختیار کیا ہے اس لئے برآمدات کو بڑھانے پر تھوڑا زور دیا گیا ہے جن کا انحصار ٹیکسٹائلز پر رہا ہے۔

کپڑے، دھاگہ اور ٹیکسٹائل کی تیار مصنوعات کی برآمدات ہماری مجموعی برآمدات کا 60 فیصد تک ہیں۔ ابراہیم قریشی نے کہا کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال غیر تسلی بخش ہے۔ حکومت اور پالیسی ساز نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ ہمیں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی اور سی پیک جیسے ہونے والے ایونٹس سے پیدا ہونے والے مواقع سے مکمل طور پر استفادہ کرنا چاہئے۔

سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جولائی تا اپریل میں برآمدات 19.21 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں جو پچھلے سال کے اسی عرصہ میں 16.89 ارب روپے تھیں جو ڈالر کے حساب سے 14 فیصد اضافہ کو ظاہر کرتی ہے۔ درآمدات میں اسی عرصہ کے دوران درآمدات 49.452 ارب ڈالر تک بڑھیں جو گزشتہ سال کے اسی عرصہ میں 43.33 ارب ڈالر تھیں۔ انہوں نے خبر دار کیا کہ صرف برآمدات کی بحالی سے ہی تجارتی توازن پر دبائو میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ حکومت کو خسارہ کو قابل برداشت حد کے اندر رکھنا چاہئے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے ساتھ مشینری درآمد ہو رہی ہے، برآمدات میں اضافہ بیرونی شعبہ کے لئے نیک شگون ہے۔