جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 10 کے حصول کیلئے بین الاقوامی کمپنی کا سپریم کورٹ سے رجوع

جمعہ 18 مئی 2018 16:04

جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 10 کے حصول کیلئے بین الاقوامی کمپنی کا سپریم ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 مئی2018ء) ایک بین الاقوامی کمپنی کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے کہ وہ پاناما پیپرز کیس میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی پیش کردہ رپورٹ کی جلد 10 کی نقول فراہم کرے تاکہ بین الاقوامی تنازع کے حتمی نقصانات کا ازالہ کیا جاسکے۔تاہم اس معاملے سے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ساتھ پاکستان کو بھی ایک بین الاقوامی تنازع کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں بروڈشیٹ ایل ایل سی کمپنی کی جانب سے سینئر وکیل لطیف کھوسہ کی جانب سے جسٹس شیخ عظمت سعید کھوسہ کے چیمبر میں درخواست دائر کی گئی، جس پر عدالت نے کہا کہ وہ لندن میں پاکستان کے خلاف واحد ثالث انتھونی ایونس کیو سی کی جانب سے دیا گیا عبوری ایوارڈ سمیت کچھ اضافی دستاویزات جمع کرائیں۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ جے ا?ئی ٹی رپورٹ کی جلد 10 مختلف ممالک کے ساتھ باہمی قانونی مدد سے متعلق ہے اور اسے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیائ کی درخواست پر سپریم کورٹ نے سیل کردیا تھا۔

بروڈشیٹ نے جے آئی ٹی کی جلد 10 کے حصول کے لیے درخواست اس لیے دی ہے تا کہ وہ اسے بین الاقوامی ثالثی عدالت میں جمع کراسکے، جہاں پاکستان اور بروڈشیٹ ثالثی کے معاملے پر تنازع جاری ہے۔واضح رہے کہ بروڈشیٹ کی جانب سے اٹھائے گئے تنازع پر پاکستان کو 50 کروڑ ڈالر کے مقدمے کا سامنا ہے، جس میں اس بات کو پیش کیا گیا ہے کہ نیب کی جانب سے مختلف ا?ف شور کمپنیوں میں پاکستانیوں کی چوری شدہ رقم کی واپسی میں مدد کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے لوٹی ہوئی رقم اور ا?ف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کی واپسی کے لیے 20 جون 2000 میں نیب نے بروڈشیٹ کمپنی سے معاہدہ کیا تھااس حوالے سے وکیل لطیف کھوسہ نے ڈان کو بتایا کہ انتھونی ایونس کیو سی کی جانب سے اس کیس میں مزید کارروائی کے لیے کمپنی سے جے آئی ٹی رپورٹ پیش کرنے کا کہا تھا۔انہوں نے کہا کہ ثالثی عدالت میں اس کیس کی آئندہ سماعت 16 جولائی کو ہے، جہاں نقصان کے حوالے سے حتمی ازالے کے اعلان کا امکان ہے۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جلد 10 کی نقل سے ثالثی عدالت میں زیر التوا مقدمے میں نقصانات کی مد کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔یاد رہے کہ اثاثوں کی وصولی کے عالمی معاہدے کی شق 3 اور 4 کے مطابق مخفی رکھے گئے اثاثوں کی تحقیقات کے تمام اخراجات کمپنی کو برداشت کرنا پڑتے ہیں۔لطیف کھوسہ نے بتایا کہ بروڈشیٹ کی جانب سے سپریم کورٹ سے اس وقت رجوع کیا گیا تھا جب بین الاقوامی ثالثی عدالت نے کمپنی کو کہا کہ وہ پاکستان کے اٹارنی جنرل دفتر اور نیب کی جانب سے حاصل کردہ جے ا?ئی ٹی رپورٹ کی جلد 10 جمع کرائے۔

خیال رہے کہ پاکستان کو ان الزامات پر 50 کروڑ ڈالر کے مقدمے کا سامنا اس لیے کرنا پڑ رہا ہے کہ نیب کی جانب سے کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر موصول نہیں ہوئے تھے۔سینئر وکیل کے مطابق نیب برآمد شدہ رقم کا 20 فیصد دینے پر رضا مند تھا جبکہ نیب کی جانب سے 15 لاکھ ڈالر کی رقم کی ادائیگی کے بعد مئی 2008 میں یہ معاہدہ ختم کردیا گیا تھا لیکن کمپنی کی جانب سے نیب کا یہ اقدام بین الاقوامی ثالثی عدالت میں چیلنج کیا گیا اور اس بات کا دعویٰ کیا جارہا ہے کہ کمپنی کو رقم موصول نہیں ہوئی۔